• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اورترکیہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے ،صدیوں سے دونوں ممالک کے عوام کے دل ایک دوسرے کیلئے دھڑکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مذہب اور ثقافت کی ایک سنہری تشکیل موجودہے جو مسلسل مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ترک ڈرامے، ’’ارطغرل غازی‘‘، نے پاکستان میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس ڈرامے نے نہ صرف پاکستانیوں کو ترک تاریخ اور ثقافت سے روشناس کروایا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان سماجی تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔ پاکستانی عوام ترک تہذیب و تمدن اور تاریخ سے مزید آشنا ہوئے اور دونوں قوموں کے درمیان ایک نیا اشتراک عمل شروع ہوا۔ تقریباً ہر پاکستانی حکمران نے ترکی کے ساتھ مراسم کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی کوشش کی۔

اس وقت ترک صدر طیب ایردوان اسلام آباد میں موجود ہیں اور تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، فنانس، دفاع، توانائی، زراعت، آئی ٹی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نئے معاہدوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ان کے دورہِ پاکستان کو دہلی اور واشنگٹن گہری اور تشویش ناک نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کے ساتھ ترکیہ کے گہرے دفاعی تعلقات بھارت کیلئے تشویشناک ہیں۔ حال ہی میں، پاکستان نے ترک بحری جہازوں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس سے ان کی دفاعی شراکت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جنوری میں، دونوں ممالک نے مشرقی بحیرہ روم میں بحری مشقیں بھی کیں، جن سے دونوں کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکی میڈیا بھی اس دورے کو اسی تناطر میں دیکھ رہا ہے۔ اس کا بھی یہی خیال ہے کہ واشنگٹن اس دورے کے بعد پاکستان اور ترکیہ کے درمیان جاری دفاعی پروڈکشن میں تعاون پر گہری نظر رکھے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے نے خطے میں انقرہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے مگر شام میں اسرائیلی افواج کے داخلے نے ترکیہ کو اسرائیل کے ساتھ ایک براہ راست مقابلے میں بھی ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے اعلیٰ سکیورٹی حکام نے بھی شام میں ترکیہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دراصل ترک صدر نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ تقسیم نہ ہوا ہوتا تو حلب اور حمص جیسے شہر آج بھی ترکیہ کا حصہ ہوتے۔ ان کا یہ جملہ بھی ترکیہ میں بہت مقبول ہوا۔ ’’خدا کی مدد سے، ہم دمشق پہنچیں گے، یروشلم ہمارا انتظار کر رہا ہے‘‘۔ ان کے مخالفین بھی یہ بات بڑی شد و مد سے کرتے ہیں کہ ایردوان کی پالیسیوں کا مقصد شام پر اسٹریٹجک کنٹرول کے ذریعے خلافت عثمانیہ کو بحال کرنا ہے۔ دراصل ترک فوج، جو مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی اور طاقتور فوج ہے۔ اس کی مضبوط ترین شاخوں میں ترک بحریہ بھی شامل ہے۔ ترک فوج میں 425000 فعال اہلکار اور 380000اضافی ریزروسٹ شامل ہیں۔ سوترکیہ کا شام میں ایک غالب طاقت کے طور پر بڑھتا ہوا اثر اس بات کا اظہار ہے کہ مستقبل قریب میں شامی محاذوں پر ترک اور اسرائیلی فوجیں آمنے سامنے ہونگی۔

دفاعی معاملات میںپاکستان اور ترکیہ کے تعلق پر غور کیا جائے تو اس کا آغاز لفظ ’’اردو‘‘ سے ہوتا ہے۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ جس مطلب ہی لشکر یعنی فوج ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کے دل اس قدر جڑے ہوئے تھے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں یہاں اس کی حمایت میں ایک بہت بڑی تحریک شروع ہوئی تھی، جس کا نام تھا تحریکِ خلافت۔ یہ سلطنت ِ عثمانیہ کی خلافت کیلئے تھی اور یہاں اس طرح نعرے گونجتے رہے کہ ’’بولی اماں محمد علی کی ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔

پاکستان بننےکے بعد صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی تعلقات انتہائی مضبوط ہوئے۔ دونوں ممالک کے مابین متعدد معاہدے ہوئے۔ دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کیا گیا اور ایک دوسرے کی فوجی تربیت میں مدد فراہم کی گئی۔ دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے کئی اہم اقدامات کیے۔ پاکستان نے ترکیہ سے زرعی مصنوعات، خاص طور پر گندم اور چاول کی فراہمی کو بڑھایا، اور ترکیہ نےپاکستان کو صنعتی مشینری فراہم کی۔ اس دور میں دونوں ممالک نے اپنی تجارتی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، تاکہ باہمی تجارت میں اضافہ ہو سکے۔ ترکیہ نے ہمیشہ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر حمایت کی، خاص طورپر بھارت کے ساتھ کشیدگی اور کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان اورترکیہ کے ثقافتی تعلقات میں بھی اضافہ ہوا۔ دونوں ممالک کے عوام نے ایک دوسرے کی ثقافت اور روایات کا احترام کیا اور ایک دوسرے کے ثقافتی پروگراموں میں شرکت کی۔ ترکیہ نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھیجے، اور پاکستان نےترکیہ کے طلباء کو تعلیمی وظائف فراہم کیے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک نے اپنے فنون، موسیقی، اور ادب کے تبادلے کو فروغ دیا جو مسلسل جاری رہا۔ توقع کی جارہی ہے کہ ترک صدر کا موجودہ دورہ ِ پاکستان، دونوں ممالک میں تعلق کی پرانی بنیادوں پر ایک نئی عمارت تعمیر کرے گا۔ یعنی ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

تازہ ترین