• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈین ذہنیت، لبرل مسلم راہنماؤں کی سوچ اور ہمارا احساسِ کمتری

پاکستان کے بارے میں بھارتی زعماء اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے بارے میں اپریل کے پہلے بدھ کو میرا کالم (جو ہر مہینے کے پہلے بدھ کو چھپتا ہے) چھپتے ہی ای میلز کا تانتا لگ گیا۔ دنیا کے کونے کونے سے پاکستان سے محبت کرنے والے ہم وطنوں کا ردِّعمل موصول ہوا تو حوصلہ ہوا کہ پڑھے لکھے پاکستانی بیداراور چوکس ہیں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور نئی ابھرنے والی سیاسی قیادت کی سوچوں اور سازشوں سے غافل نہیں ہیں۔ کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میںبھارتی سوچ پر تشویش ہمارے ہاں صرف مذہبی جماعتوں کو ہے یا انتہا پسند گروہوںکو، یہ بات غلط اور گمراہ کُن ہے ۔بھارتی لیڈروں کی سوچ پر ہر اس پاکستانی کو تشویش ہے جو اس ملک کے بارے میں سوچتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ بّرصغیر کے مسلمانوں کی زندگی میں تین قد آور شخصیات نے انقلابی تبدیلیاں برپا کیں۔ آخرمیں تینوں کی جدوجہد ایک علیحدہ وطن کے قیام پر منتج ہوئی مگر آغاز میں یہ تینوں راہنما ہندومسلم اتحاد کے داعی تھے۔ سرسیّد نے پورے خلوص سے اتحاد کی کوششیں کیں مگر بالآخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اگر ہندوستان میں برطانوی جمہوریت آئی تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوؤں کے رحم وکرم پر پائیں گے‘‘۔مشرق کے بے مثل شاعر اور مفکر علامّہ اقبالؒ نے بھی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘جیسے ترانے لکھے مگر اسی ہندوستان کی اکثریتی آبادی کی تنگ نظری کو بھانپ کر انہوں نے خود ایک علیحدہ وطن کا تصوّر پیش کیا۔ محمدعلی جناحؒ کئی سالوں تک ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے وکیل رہے مگر ھندوذہنیت کو اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد اس قدر بدظن ہوئے کہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوکر برطانیہ چلے گئے اور جب واپس آئے تو مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی تحریک کا پرچم اٹھالیا۔ اطالوی صحافی آریانہ فالیسی کو انٹرویو دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو جیسے لبرل اور پروگریسو لیڈر نے دو قومی نظرئیے کو جس طریقے سے واضح کیا ہے شاید کوئی اور نہ کر سکتا۔ بھٹو صاحب کے الفاظ ہیں ’’ہمارے مذاہب، ہماری روحوں میں گہرائی تک اترے ہوئے ہیں اور یہ ہماری زندگی کے طورطریقوں سے واضح ہے۔ ہمارے کلچر مختلف ہیں۔ ہمارے رویے مختلف ہیں۔ اپنی پیدائش کے دن سے اپنے مرنے کے دن تک ایک ہندو اور ایک مسلمان جن قوانین اور رسم ورواج کا پابند رہتا ہے، ان میں سرے سے کوئی اشتراک یا مشترکہ چیزنہیں ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کھانے اور پینے کے طور طریقے بھی مختلف ہیں۔ یہ دونوں دو مضبوط اور متضاد عقیدے ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ ہندو معقول اور بردبار مخلوق نہیں ہے۔ اس لیے مسز اندراگاندھی بھی آپ کی طرح یہ سوچ رکھتی ہیں۔ یہ لوگ اپنی گاؤ ماتا کا تو احترام کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا احترام نہیں کرتے ۔ انہوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ بدسلوکی کی ہے اور ہمیں ذلیل وخوار کرنے کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ 1944ء میں میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ ان دنوں میری تعطیلات ہوچکی تھیں۔ اس لیے اپنے والدین کے ساتھ کشمیر میں تفریح پر تھا۔ جس طرح لڑکے کیا کرتے تھے، میں بھی پہاڑیوں پر چڑھتا اترتا رہا۔ بالآخر مجھے شدید پیاس محسوس ہوئی، اس لیے میں ایک شخص کے پاس گیا، جو پانی فروخت کررہا تھا اور اس سے میں نے کہا کہ: 'میں پانی پینا چاہتا ہوں۔ اس شخص نے گلاس پانی سے بھرا اور میری طرف بڑھادیا، لیکن مجھے دینے سے پہلے ہی روک لیا اور کہنے لگا کہ :کیا تم ہندوہو یا مسلمان؟میں اس کی بات سن کر ہچکچایا، لیکن پانی کی مجھے شدت سے ضرورت تھی، مگر بالآخر میں نے اس سے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ میرا اتنا کہنا ہی تھا کہ اس شخص نے گلاس کا پانی زمین پر انڈیل دیا‘‘۔ یہ تھی ہندوؤں کی وہ ذہنیت جس نے مسلمانوں کو علیحدہ وطن لینے پر مجبور کیا۔ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ یہ سوچ اب بھی تبدیل نہیں ہوئی۔
پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری (جو دلی، بمبئی اور کلکتہ ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہے اور پاکستان بننے کے بعد ریڈیو پاکستان کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا) نے سرگذشت کے نام سے بڑی دلچسپ آپ بیتی لکھی ہے جس کا دیباچہ ان کے بہت قریبی دوست فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے۔ بخاری صاحب مولوی نہیں تھے۔شام کو رنگین محفلوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ان کے بے شمار دوست ہندو تھے مگر ان کی آپ بیتی ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری کی ایک داستان معلوم ہوتی ہے۔ مشہور فلم ایکٹر راج کپور کے والد پرتھوی راج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’پرتھوی راج کے ڈراموں اور فلموں میں شادی بیاہ کی رسمیں بھی ہندوانہ، گھربار کا نقشہ بھی ہندوانہ، مندرپوجا کا منظر کہانی کا جزوِلاینفک ہوتا البتہ ملازم مسلمان دکھایا جاتا مالک کو ہاتھ باندھ کر سلام کرنے والا۔ پرتھوی راج نے ہندوتہذیب، ہندوثقافت ، ہندورسم ورواج ، ہندولباس اور ہندوطریقِ زندگی کو رواج دیا اور اس کے ساتھ ساتھ سینما کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان قوم میں صرف وفادار غلام پائے جاتے ہیں۔ جس کہانی میں مسلمان کسی غلام کا کردار نہ کرے اس کہانی میں مسلمان کوغنڈہ یا بدمعاش دکھایا جاتا تھا۔ مثلاً داڑھی رکھے ہوئے یا عمامہ باندھے ہوئے مسلمان ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد تو یہ تعصب ہندوستانی فلموں میں اس قدر نمایاں ہوا کہ خدا کی پناہ۔ پرتھوی راج کا جو قلعہ میں نے اپنے دل ودماغ میں بنا رکھا تھا وہ مسمار ہوگیا‘‘۔ایک جگہ مشہور ہندولیڈر لالہ راجیت رائے کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’ہندوقوم بڑی سورما ہے گوشت نہیں کھاتی مگر قومیں کھاجاتی ہے۔ مگر رام جانے ابھی تک مسلمانوں کو کیوں نہیں کھا سکی؟ ہندوؤں کی ان باتوں سے جی جلتا تھا مگر مسلمان قوم سوئی پڑی تھی۔ اگر اقبالؒ اور قائد اعظم ؒاس قوم کو جھنجھوڑ کر نہ جگاتے تو یہ قوم مرجاتی اور ایسی حالت میں مرتی کہ کوئی جنازہ اٹھانے والا بھی نہ ہوتا‘‘۔
ممبئی ریڈیو سے ہندوستان کے تمام لیڈروں کی تقاریر نشر ہوتی رہیں نہرواور سروجنی نائیڈو تقاریر کرچکے تھے۔ بخاری صاحب کی درخواست پر قائداعظم نے 12نومبر1939ء کو ممبئی ریڈیو سے پہلی بارتقریر کی۔ قائد کی آمد کا حال بیان کرتے ہوئے بخاری صاحب لکھتے ہیں ’’جب قائد اعظم کی سواری کوئینز روڈ پہنچی تولوگوں کے بے پناہ ہجوم کے باعث گاڑی کا آگے چلنا دشوار ہوگیا۔ گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی گئی اور ریڈیو کے پھاٹک میں داخل ہوئی تو لوگ بھی اندر آنے لگے۔ میری گھبراہٹ دیکھ کر قائداعظم ؒنے فرمایا ان سے کہو کہ اندر نہ آئیں۔ ان کا فرمان سن کر میں سکتے میں آگیا۔ میں کیا اور میری آواز کیا۔ میری حیثیت کیا کہ کہوں اور میرے کہنے پر ہجوم احاطہ کے اندر آنے سے بازرہے۔ مگر یہ قائد اعظم ؒکے نام کی برکت تھی کہ میری آواز میں تاثیر پیداہوگئی اور آگے بڑھتے ہوئے لوگ یوں پیچھے ہٹ گئے جیسے سمندر کی لہر ساحل تک آکرپلٹ جائے۔قائدؒ کی تقریر کے بارے میں لکھتے ہیں ’’قائد اعظمؒ کی آواز تھی کہ صوراسرافیل ، لہجہ تھا کہ صداقت کے سمندر کی لہریں، الفاظ تھے کہ ترستی مٹی پر رحمتِ باراں۔ جس جس نے قائداعظمؒ کی تقریر سنی مبہوت ہوگیا۔ اخباروں میں قائد اعظمؒ کی تقریر ہفتوں موضوعِ سخن بنی رہی۔ کانگریس حکومت تڑپ اٹھی۔ اس نے قائد کی تقریر کے اس حصّے پر اعتراض کرڈالا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام کے معنی ہیں عمل۔ پیغمبر ِاسلام نے رمضان کے ضبط وانضباط کی تلقین اس لئے فرمائی کہ ہم میں عمل کی قوت پیداہو۔ قائد نے ایکشن کا لفظ استعمال کیا تھا۔ کانگریس والوں نے ایکشن سے مراد ڈائریکٹ ایکشن لیا‘‘۔
ڈاکٹر جاوید برمنگھم یونیورسٹی میںپڑھاتے ہیں۔ آج ملنے آئے اور انہوں نے یہ بتاکر حیران کردیا کہ آج بھی وہاں انڈینز پاکستانیوں کے سٹوروں سے سودا سلف نہیں خریدتے۔ جبکہ پاکستانی ایسی متعصبانہ سوچ نہیں رکھتے ، پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں انڈیا الیکشن اشو نہیں تھا جبکہ آج بھی انڈیا کے الیکشن میں سب سے زیادہ پاکستان کے خلاف زہر اُگلا جارہاہے۔
ہمارے میڈیا کے اربابِ بست وکشاد اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج بھی پورے انڈیا میں نہ پاکستان کاکوئی چینل دیکھا جاسکتا ہے نہ ان کے اشتہاروں میں کسی پاکستانی مرد یا خاتون کا فوٹو دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں چینلوں پر بھارت کے لائیوپروگرام نشر کئے جارہے ہیں۔ ہر شہر میں بھارتی ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی قدّ آدم تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ اسے کاروباری ضرورت سمجھتے ہیں مگرصاحبانِ فکر و دانش کے نزدیک یہ بدترین قسم کا احساسِ کمتری ہے۔کیا ترکی یا ایران میں کسی ایسے ملک کا لائیو پروگرام یااس کے کسی فلمی اداکار کا فوٹو اشتہاری ضرورت کیلئے استعمال ہوسکتا ہے جس کے ساتھ ان کے تنازعات چل رہے ہوں؟کیا جرمنی یا فرانس اس کی اجازت دے سکتے ہیں، کیا خود بھارت میں یہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں!!
اگر قائد کی روح نے ہم سے پوچھ لیا کہ جس کلچر کے تحفظ کیلئے پاکستان بنایا تھا وہ کہاں ہے؟ اور جس کلچر کے غلبے سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے علیحدہ وطن لیا گیا تھا وہ آپ نے گھروں میں داخل کرلیا ہے ،آج آپ کی اولاد کے ہیرو بھارت کے فلمی اداکار ہیں !آپ نے ہندوانہ کلچر کی یلغار روکنے کی کیوں کوشش نہیں کی۔ حکومت کیوں خاموش ہے؟ والدین کیا کررہے ہیں؟ اساتذہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کیوں آنکھیں بند کی ہوئی ہیں؟ تو ہمارے پاس شرمندگی اور ندامت کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ اقبالؒ اور قائدؒ نے غلام ہندوستان کے مسلمانوں کو احساسِ کمتری کی پستیوں سے نکال لیا تھا آج آزاد پاکستان کے باشندے اپنے بچوں سمیت پھر ان پستیوں میں گرنا چاہتے ہیں نئی نسل کا غلامانہ طرزِ عمل دیکھ کر دل دکھتا ہے ۔وہ نہیں جانتے کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں جس کے بانی ایسے پست احساسات سے بہت بالا تھے۔وہ بڑے انسان اور بڑے لیڈر تھے۔ اس لئے واضح اور یکسو تھے۔ وہ باکمال قائدؒ جس کا نام محمد علی جناح تھا، ہندوتو کیا انگریز حکمرانوں سے بھی کبھی مرعوب نہ ہواتھا۔ اور اقبالؒ! اس نے تو انگریزی تہذیب کے مرکز میں رہ کر اس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا، مغربی تہذیب کی چکاچوند سے مرعوب نہ ہونے کی وجہ ہزار سالہ مسلم تاریخ کے سب سے بڑے مفّکر اورشاعرنے خود بتادی کہ ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلو ہ ٔدانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف
جب کہیں سے اکا دکا آواز بھارتی تہذیب کی یلغار کے خلاف بلند ہوتی ہے توبیرونی کلچر کا حامی گروپ میڈیا میں شور مچاتا ہے تا کہ غیرت اور حمیت جیسے الفاظ بے توقیرہوجائیں اور احساسِ کمتری کا طعنہ دینے والے مدافعت پر مجبور ہو جائیں۔
ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی کوشش ہونی چاہیے مگر باوقار طریقے سے۔ عزت اور وقار داؤ پر لگا کر نہیں، ہمسائے کے نیچے لگ کر یا اس کی تہذیبی بالادستی (cultural hegemony)تسلیم کرکے ہرگزنہیں ! نئی نسل میں یقین اور خود اعتمادی پیداکرنا ہوگی اور انہیں احساسِ کمتری کی دلدل سے نکالناہوگا۔ پوری پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ میڈیا مالکان پر اﷲکا بہت فضل ہے۔ وہ مالی مفاد کیلئے بیرونی کلچر فروغ دینے کی بجائے اپنی ملّی اقدار اور قومی وقار کے پرچم بردار بنیں۔ ان اقدار کا اُتنا ہی پاس کرلیں جتنا یورپ اور امریکہ کا آزاد میڈیا کرتا ہے۔
نوٹ:اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ معروف اینکر حامدمیر کو جلد صحت یاب فرمائیں۔ ان کی کئی باتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے، اس کے بعد جو کچھ سکرین پر دکھایا گیا وہ بھی بہت افسوسناک اور غلط تھا اور غالباً اس کا ادراک ہوچکا ہے مگر اب کشیدگی اور تناؤ کم ہونا چاہیے۔ کچھ صحافیوں کا اس صورتِ حال کو معرکے کا نام دینا اور فتح یاب ہونے کے اعلان کرنا مناسب نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں وطنِ عزیز، اداروں کا ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آراء ہونا ہرگز affordنہیں کرسکتا۔ افراد یا ادارے کتنے ہی بااثر یا طاقتور ہوں کسی کی انا پاکستان سے بلند اور کسی کی خواہشات قانون سے بالا نہیں ہونی چاہئیں۔ حل ایک ہی ہے کہ تمام ادارے اپنی بالادستی کی خواہشات ختم کرکے قانون کی بالادستی تسلیم کریں۔ انتقام حل نہیں ہے۔ کسی چینل کی بندش غلط اور نقصان دہ ہوگی۔ موجودہ صورتِ حال میں خیر کو ڈھونڈنا ہوگا۔ اس ضمن میں میڈیا کیلئے ایک موثّر ضابطہ اخلاق بن جائے تو یہ قوم کیلئے تحفے سے کم نہ ہوگا۔پاک فوج کو متنازعہ گروہوں کی ریلیوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ فوج سیاست سے الگ ہو تو پوری قوم کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے۔ اپنے اپنے اداروں سے وفاداری بجا مگراب ادارہ جاتی وفاداری کو ملک سے وفاداری پر قربان کرنا ہوگا ۔سب کی وفاداری اور محبت کا مرکز اور محور صرف اور صرف پاکستان ہوناچاہیے۔ سب کی بقا اور فلاح اسی میں ہے۔
تازہ ترین