• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قانون میں ترمیم کی گئی ہےکہ’’غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا یا بلاک کرنے کیلئے 24گھنٹے سے قبل درخواست دینا لازمی ہو گا‘‘ سوشل میڈیا پروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8ارکان پر مشتمل ہو گی سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا اور چیئرمین پی ٹی اے بہ لحاظ عہدہ ارکان ہوں گے چیئرمین اور دیگر ارکان کی تعیناتی کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا ان کی مدت 5سال کیلئے ہو گی تاہم ایکسٹینشن نہیں دی جا سکے گی، 10سال پر محیط تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجینئر، ایڈووکیٹ، سوشل میڈیا پروفیشنل، آئی ٹی انٹر پرینور اتھارٹی کے ارکان میں شامل ہوں گے اتھارٹی کے مالی سال کے آخر میں پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کی جائے گی پالیسی میٹرز وفاقی حکومت اتھارٹی کو ہدایات جاری کر سکے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے قانون میں کی گئی ترامیم کے مطابق نیک نیتی سے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ اس طرح کسی شخص کے خلاف کی گئی کارروائی پر اتھارٹی کے ارکان کا احتساب نہیں کیا جا سکے گا اس نئے قانون کے تحت سول میڈیا کمپلینٹ کونسل قائم کی جائے گی جو چیئرمین اور 4ارکان پر مشتمل ہو گی جہاں عام لوگوں، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی۔ چیئرمین اور ارکان کی تعیناتی 3سال کیلئے ہو گی جس میں وفاقی حکومت 3سال کی مزید توسیع کرنے کی مجاز ہو گی، چیئرمین کیلئے بیچلر ڈگری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون اور سوشل میڈیا پالیسی یا متعلقہ فیلڈز میں 15سالہ تجربہ درکار ہو گا۔ وفاقی حکومت ترمیم شدہ قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرئے گی ریگو لیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹریبونل میں درخواست دے سکے گا جبکہ ٹریبونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60دن میں سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے گا ٹریبونل تمام کیسز کے فیصلے 90دن میں کرے گا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل کا چیئرمین ایسا شخص ہو گا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو ایک ممبر جرنلزم میں بیچلر ڈگری یافتہ ہو اور 12سال کا پیشہ ورانہ تجربہ رکھتا ہو، دوسرا ممبر سافٹ وئیر انجینئر ہو گا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہو گا چیئرمین اور ارکان کی نامزدگی 3سال کیلئے کی جائے گی ترامیم شدہ قانون کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بات کی انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا، اس ونگ میں کام کرنے والے تمام اہلکار کیسز، انکوائریز، تحقیقات، اثاثے، پراپرٹیز ِ بجٹ حقوق اور استحقاق سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کو ٹرانسفر کر دئیے جائیں گے۔ وفاقی حکومت اس قانون کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں بنا سکے گی جو تحقیقات کے لئے کسی بھی انویسٹی گیشن ایجنسی سے معاونت لے سکیں گی حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ نمائندگی موثر بنانے کی ضرورت ہے ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت3 سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہو گا۔ غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیر شائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہو گا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا بھی شامل ہو گا۔ وزراء نے پیکا ایکٹ کی قانون سازی پر جلد بازی کا اعتراف کرتے ہوئے بات چیت کاعندیہ دیا ہے تاہم حکومت نے صحافتی تنظیموں سے ڈائیلاگ شروع نہیں کیا جس کی وجہ سے ایجی ٹیشن جاری ہے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے پیکا قانون سازی میں جلد بازی کی ہے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ قوانین میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے، ابھی پیکا ایکٹ کے رولز بننے ہیں، اس میں مشاورت اور بات چیت کی بہت گنجائش موجود ہے۔ وہ پیکا ایکٹ کی متنازع شقوں پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، اتھارٹی میں پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو شامل کیا جائے گا۔

پیکا ایکٹ میں ترامیم کے حق میں بات کرنے والے ایک دانشور کا سوال ہے کیا پاکستان جیسے ملک جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی ہے میں اسلام کے خلاف بات کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟ کیا ہر ایرے غیرے کوریاستی اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں اور بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے کی اجازت دے دی جائے؟ کیا ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ کے ذریعے فوج، عدلیہ اور سیاست دنوں کی کردار کشی پر خاموشی سے بیٹھ جانا چاہیے؟ جب ان باتوں کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے تو پھر اس بات پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ آزادی اظہار پر پابندی لگائی جا رہی ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ پورا ملک سوشل میڈیا میں کی جانے والی ’’دہشت گردی‘‘ کے ہاتھوں عاجز آ گیا تھا لہٰذا متاثرہ افراد کی اشک شوئی کیلئے قانون کو حالات کے مطابق ڈھالنا وقت کی ضرورت ہے لیکن قانون بنانے والوں نے سوشل میڈیا کے کرداروں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کو بھی نکیل ڈالنے کی شعوری کوشش کی ہے صحافتی تنظیموں کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ بڑی حد تک حقائق پر مبنی ہیں اس قانون کی آڑ لے کر الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افرادکی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی۔ فیک نیوز کی تشریح اور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کیلئے صحافتی تنظیموں کی موثر نمائندگی ضروری ہے پیکا ایکٹ کے تحت الزام کو قابل ضمانت قرار دیا جائے ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

تازہ ترین