یہی ہونا تھا ۔جس خدشے کا اظہار انہی صفحات میں پہلے ہی یہ عاجز کرچکا ہے کہ نئے امریکی صدر کے عزائم کچھ اچھے نظر نہیں آرہے ، وہ اسرائیل کی توسیع پسندی کے معاون خصوصی بن کر آئے ہیں، دوسری مدت کیلئے ان کا انتخاب بھی امریکی یہودی لابی نے ممکن بنایا ہے تاکہ دنیا کا طاقت ور ترین صدر تمام رکاوٹوں کو ختم کرکے فلسطینیوں کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ موصوف نے آتے ہی جہاں اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی وہیں یہ اعلان بھی کردیا کہ غزہ کو وہ قبضے میں لے کر ایک ایسا شہر بنائیں گے جس میں ماسوا فلسطینیوں کے یہودی و دنیا بھر سے دوسرے مذاہب کے لوگ آکر بسیرا کریں گے اور یہ ایک جدید ترین بین الاقوامی سطح کا شہر ہوگا جہاں آنے والے اسرائیل کے خوابوں کی تکمیل کریں گے، اس کے علاوہ امریکی صدر نے اسرائیلی قیادت کو ہر قسم کی تفتیش سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک عالمی ادارے کی مُشکیں بھی کس دی ہیں تاکہ کوئی عالمی ادارہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے دیگر حامیوں کو گرفتار کرسکے نہ ہی بھیانک جنگی جرائم میں ملوث قرار دے کر قانون کے مطابق سزا سے ہم کنار کرسکے۔
اس حوالے سے سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے ٹرمپ کو اس کے ارادوں کے اظہار پر منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اُنکے آبائی علاقوں جافا، تل ابیب، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے جہاں انکے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کردیا تھا۔‘‘ شہزادہ ترکی الفیصل نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’’یہ زمینیں فلسطینیوں کی ہیں، وہ گھر جنہیں اسرائیل نے تباہ کیا فلسطینیوں کے ہیں اور وہ انہیں دوبارہ تعمیر کرلیں گے، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے گزشتہ اسرائیلی حملوں کے بعد اپنے گھر تعمیر کئے تھے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے بھی ایک کمزور ردعمل سامنے آچکا ہے اور پاکستان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کی بات کو غیر منصفانہ، تکلیف دہ اور تشویش ناک قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ ’’ہم فلسطینیوں کی خواہش کے مطابق ’’دو ریاستی حل‘‘ کے حامی ہیں جو فلسطینی چاہتے ہیں ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ حالانکہ دو ریاستی حل کبھی فلسطینیوں کی پہلی ترجیح نہیں رہا یہ صرف ایک آپشن ہے، تاہم ترجمان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کی بات کو غیر منصفانہ، تکلیف دہ اور تشویش ناک قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ’’ عالمی برادری غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کا محاسبہ کرے ،پاکستان کی فلسطین کے بارے میں پوزیشن بڑی واضح ہے، پاکستان، فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور فلسطینیوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔‘‘ دوسری طرف بین الاقوامی امور کے ماہر دانش ور، صحافی اور سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’’فلسطینی بہن بھائی عزم و حوصلے کی عمدہ مثال ہیں، اسرائیل کو فلسطین چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر اور فلسطین پر منعقد کیے گئے سیمینار سے خطاب میں اس یقین کا اظہار کیا کہ ’’غزہ دوبارہ تعمیر ہوگا اور ان شاء اللہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر ابھرے گا، اہل غزہ کا ساتھ دینا وقت کی ضرورت ہے، اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں اب تک سترہ ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں۔عالمی برادری مقبوضہ کشمیر اور غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔‘‘ یہ امر افسوس ناک ہے کہ غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر عالمی ردعمل دھرا رہ گیا، وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ کی وضاحتیں بھی کسی کام نہ آئیں اور امریکی صدر نے ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا بیان دُہرا دیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کی پٹی اسرائیل کے ذریعے امریکہ کے حوالے کردی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’اس وقت تک فلسطینی اس خطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ کہیں زیادہ محفوظ اور خوبصورت کمیونٹیزمیں دوبارہ آباد ہوچکے ہوں گے۔‘‘ پوچھنا چاہیے کہ ٹرمپ کون ہوتاہے جو فلسطینیوں کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے جرم میں برابر کا شریک ٹھہراتے ہوئے غزہ کے لوگوں کو کنٹینرز کا عارضی مکین بنائے، جنہیں جب چاہے دیس نکالا دے یا انہیں بمباری سے ختم کرا دے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ احتیاط سے غزہ کی تعمیر شروع کرے گا، دنیا کے بہترین ترقیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ غزہ کی اس تعمیرِ نو کے بعد غزہ کی پٹی اپنی نوعیت کی سب سے عظیم اور سب سے شاندار پیش رفت میں سے ایک ہوگی۔ اس کام کے لیے امریکہ کو کسی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس سے خطے میں استحکام پیدا ہوگا۔ خیال رہے کہ دو روز قبل صدر ٹرمپ کے غزہ پر جابرانہ قبضے کے اعلان پر اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کی مخالفت کرکے دو ریاستی حل پر زور دیا تھا۔ اگر ٹرمپ کا شیطانی منصوبہ جو تعمیر کی آڑ میں تخریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں ،کامیاب ہو جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ مظلوم اہل فلسطین غزہ سے بلکہ ارض فلسطین سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ رہ گئی امت مسلمہ تو اس کی قیادتیں اسرائیل نواز اور عوام بے بس ہیں جو کچھ بھی نہیں کرسکتے ماسوا ئےاحتجاج کے جس کا اسرائیل پر اثر ہوتا ہے نہ ہی امریکہ پر۔
اس صدی میں تو یوں بھی معجزات نہیں ہوتے، ہوں بھی کیوں؟ ہم ایک قدم بڑھاتے نہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ہماری دعاؤں سے اسرائیل تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو طارق بن زیاد ساحل پر کشتیاں نہ جلاتے۔
نئی زمیں کی ہوائیں بھی جان لیوا ہیں
نہ لوٹنے کے لئے کشتیاں جلانا کیا
کنارِآب کھڑی کھیتیاں یہ سوچتی ہیں
وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانا کیا