انٹرویو: عاطف شیرازی، اسلام آباد
چوہدری انوارالحق، آزاد جمّوں کشمیر کے 15ویں وزیرِ اعظم ہیں اور اُن کا تعلق تحریکِ انصاف کے فارورڈ بلاک سے ہے۔ قارئین کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوگی کہ اُنھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور گریجویشن مکمل کرنے کے بعد روزنامہ’’جنگ‘‘لاہور میں انٹرن شپ بھی کی۔
انتہائی سادہ طبیعت کے مالک اور صوفیانہ شاعری سے دل چسپی رکھتے ہیں۔گزشتہ دنوں چوہدری انورالحق کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ، آزاد کشمیر کی سیاسی صُورتِ حال پر بھی گفتگو ہوئی۔ اِس نشست کا احوال جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی سے متعلق بتائیں؟
ج: مَیں نے پرائمری تک تعلیم مَری کانونٹ اسکول سے حاصل کی، میٹرک کرسچین ماڈل ہائی اسکول، شادمان سے کیا، جب کہ گریجویشن جی سی، لاہور سے اور وکالت کی تعلیم پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے حاصل کی۔
س: سیاست میں کیسے آنا ہوا؟
ج: مجھ سے پہلے میرے والدِ گرامی، چوہدری صحبت سیاست میں تھے۔ وہ 1962ء میں اسٹیٹ کاؤنسلر بنے۔ جب1962 ء میں62ء کے آئین کے تحت آزاد کشمیر کے عوام کو پاکستان کی اسمبلی میں نمائندگی کا حق ملا، تو آزاد کشمیر بَھر سے چھے افراد اسٹیٹ کاؤنسلر منتخب ہوئے، جن میں میرے والد بھی شامل تھے۔ اس کے بعد1967 ء میں ایک بار پھر وہ بھاری اکثریت سے اسٹیٹ کاؤنسلر منتخب ہوئے۔
پھر جب 1970ء میں آزاد کشمیر اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا، تو میرے والد رُکن قانون ساز اسمبلی منتخب ہو کے اور اسپیکر کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ 1990ء تک مختلف حیثیتوں میں کام کیا اور 1990ء ہی میں سینئیر وزیر بنے۔
مَیں نے 1996ء میں عملی سیاست میں قدم رکھا اور اپنے ضلعے، بھمبر کا ایڈمنسٹریٹر تعیّنات ہوا اور پھر2000ء میں رُکنِ اسمبلی منتخب ہوا۔ سیاست کا آغاز پیپلز مسلم لیگ آزاد کشمیر سے کیا، دو سال اپوزیشن میں گزارے، ہاؤسنگ اور پلاننگ کا وزیر رہا، چیئرمین پی اے سی، آزاد کشمیر بھی بنا۔نیز، مجھے آزاد کشمیر کا نوجوان وزیر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
س: بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے کشمیریوں سے متعلق حالیہ بیان پر کیا کہتے ہیں؟
ج: راج ناتھ سنگھ کا بیان بیمار ذہنیت کاعکّاس اور سِک ڈاکٹرائن ہے۔ بانیٔ پاکستان نے کہا تھا کہ’’ کشمیر، پاکستان کی شہہ رگ ہے‘‘ تو مسلۂ کشمیر پر کسی قسم کا یوٹرن ہمارے لیے خُودکُشی کے مترادف ہے۔ ویسے راج ناتھ جیسا بیان دینے کے لیے انسان کو انتہائی بے شرم ہونا چاہیے۔ بھارت کے سیاست دان بالعموم، اور بی جے پی کے جنونی رہنما بالخصوص، ایسے ہی مزاج کے حامل ہیں۔
اُن کے ہاتھ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بسے باشندوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بھارت کو کشمیریوں کا تشخّص پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں قابلِ مذمّت ہیں۔
عالمی برادری کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے ضمن میں اپنا کردار ادا کرے اور مسئلۂ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروائے۔ 5 اگست2019 ء کا بھارتی اقدام، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قراردادوں کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔
یو این ایس سی کی قرارداد 91جمّوں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بھارتی اقدام کی اجازت نہیں دیتی۔ بھارت نے مقبوضہ جمّوں کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔1989 ء سے اب تک ہزاروں کشمیری لاپتا کیے جاچُکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں8 ہزار سے زائد اجتماعی قبور کا دریافت ہونا بھارتی قابض افواج کی درندگی کا واضح ثبوت ہے۔ آج مقبوضہ جّموں کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے، وہاں کے باشندے مسلسل خوف کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کی شناخت مٹائی جارہی ہے اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
س: صدارتی آرڈینیس کے خلاف احتجاج کرنے والے کشمیریوں کے لیے کیا پیغام ہے؟
ج: جلسے، جلوس اور ریلیوں پر پابندی سے متعلق صدارتی آرڈینینس واپس لے لیا گیا ہے، جس کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ صدارتی آرڈینینس شہریوں کو جائز احتجاج کا حق دیتا ہے اور آرڈینینس کو قانون بنانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ وکلاء سے لے کر عام شہریوں تک، سب اِس آرڈینینس پر بات کرسکتے ہیں۔ شہریوں کا تحفّظ حکومت کی ذمّے داری ہے۔بہرحال، اب یہ آرڈینینس معطّل کردیا گیا ہے۔
س: آپ تحریکِ انصاف کا حصّہ تھے، پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ فارورڈ بلاک بنانا پڑگیا؟
ج: تحریکِ انصاف کے ساتھ اختلاف اصولوں کی بنیاد پر ہوا۔ چیئرمین تحریکِ انصاف، عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگا کر ہمیں لُبھایا، لیکن جب آزاد کشمیر میں اقتدار تحریکِ انصاف کو ملا، تو کام اس کے برعکس ہونا شروع ہوگئے۔ عمران خان، آزاد کشمیر میں بھی بزدار پلس طرز کا حُکم ران چاہتے تھے، لہٰذا ایک ایسے شخص کو وزیرِ اعظم بنا دیا گیا، جو ریاستِ مدینہ کے تصوّر کے سراسر برعکس تھا۔
س: کیا تحریکِ انصاف کے ساتھ دوبارہ اتحاد ممکن ہے؟
ج: سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ تاہم، ایسے فیصلے اکیلے کرنا مشکل ہیں، اِس ضمن میں دوستوں کی مشاورت درکار ہوتی ہے،البتہ میرے جیسے شخص کے لیے اُن رستوں پر چلنا تکلیف دہ ہے، جو رستے تَرک کردیے ہوں۔
س: آپ کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کا خطرہ کس حد تک موجود ہے؟
ج: مَیں نے20اپریل 2023ء کو حلف اُٹھایا اور اُس وقت سے عوامی مفاد کا تحفّظ اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں تیزی میری ترجیح رہی ہے۔ مَیں نے اس تصوّر کو بحال کیا کہ پاکستان، تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔ عوامی مفاد کے تحفّظ پر مافیاز سے استفادہ کرنے والے سیاسی عناصر میرے خلاف ہوگئے ہیں۔
مَیں اقتدار سے چمٹا رہنے والا شخص نہیں ہوں، مخالفین نے جب بھی 27 ارکان ظاہر کیے، اُنہیں تحریک عدم اعتماد لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی،مَیں ضمیر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اگر سیاسی مخالفین 27ارکانِ اسمبلی کے ساتھ پریس کانفرنس کردیں، تو مَیں مستعفی ہوجاؤں گا۔
س: کیا آپ اپنی سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ج: اِس حوالے سے دوستوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے، ہمارا اپنا فارورڈ بلاک ہے، جس کے ساتھ صلاح مشورے ہو رہے ہیں، آنے والے دنوں میں فیصلہ کرلیں گے کہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ چلنا ہے یا اپنی کوئی الگ جماعت بنانی ہے۔
س: وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کیسی ہے؟
ج: وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ عُمدہ ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان، میاں شہباز شریف میرے حلقۂ انتخاب میں آئے اور میری درخواست پر تین ارب روپے کے پراجیکٹ، دانش اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مجھے وفاقی حکومت کی مشکلات کا احساس ہے۔
آزاد کشمیر کا بجٹ 28ارب روپے پر فِکس ہے، جو تین، چار سال سے نہیں بڑھا، ہم سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسے چالیس ارب روپے تک لے جایا جائے۔ آزاد کشمیر کے لیے مانسہرہ ہائی وے ٹنل ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، جس کا رواں سال افتتاح ہو جائے گا، یہ منصوبہ پونچھ اور مظفّر آباد ڈویژن کے لیے ہے، جو پی ایس ڈی پی کا حصّہ بن جائے گا۔
تمام انتظامی تعیّناتیاں مشاورت سے ہوتی ہیں، اگر وفاق کی جانب سے کسی اسامی پر مناسب شخص کا تقرّر کیا جا رہا ہو، تو تحفّظات کی ضرورت نہیں رہتی۔ وفاقی حکومت امپورٹڈ آٹا سبسڈائیز ریٹس پر فراہم کر رہی ہے، حالاں کہ وفاق پر معاشی دباؤ ہے، جس کا ہمیں احساس ہے۔
س: سیّاحت کے شعبے پر کوئی خاص توجّہ نظر نہیں آتی، آپ کیا کہتے ہیں؟
ج: آزاد کشمیر کی ترقّی میں سیّاحت اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شاہ راہوں کی ترقّی کے بغیر سیّاحت کی ترقّی ممکن نہیں۔ آزاد کشمیر کو قدرت نے دو پوٹینشل دیے ہیں، ایک واٹر گولڈ اور دوم، ٹوریسٹ اسپاٹس۔ ہم نے روڈز انفرا اسٹرکچر پر 20ماہ میں 22ارب روپے خرچ کیے ہیں تاکہ سیّاحوں کو ٹوریسٹ ریزارٹس تک پہنچنے میں کوئی دقّت نہ ہو اور وہ قدرتی مناظر سے بھرپور طور پر لُطف اندوز ہوسکیں۔
نیلم ویلی پر تو جنّت کا گمان ہوتا ہے۔ پھر حسین قدرتی مناظر کی طرح اللہ تعالیٰ نے آزاد کشمیر کو پانی کی دولت سے بھی خوب نوازا ہے۔ پاکستان کے توانائی شعبے کا سرکلر ڈیبٹ اور توانائی بحران کا حل آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہے۔ قدرت نے کشمیر کو واٹر گولڈ سے نوازا ہے، منگلا ڈیم اور نیلم جہلم کشمیر میں ہیں۔
اِس وقت 3000میگاواٹ بجلی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس سے حاصل کی جارہی ہے اور اگر وفاقی حکومت توجّہ دے، تو 9000میگاواٹ تک بجلی آزاد کشمیر سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ مستقبل کی جنگیں پانی پر ہونی ہیں۔ زراعت کے لیے پانی منگلا ڈیم فراہم کرتا ہے اور حکومتِ پاکستان اِن ذرایع سے فائدہ اُٹھا کر سرکلر ڈیبیٹ ختم کر سکتی ہے۔
س: کیا بھارت کے ساتھ تجارت ممکن ہے؟
ج: بھارت کے ساتھ تجارت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک بھارت ریاستی دہشت گردی سے باز نہیں آتا، انسانی حقوق بحال نہیں کرتا، عالمی مبصّرین کو مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دیتا، اُس کے ساتھ تجارت ممکن نہیں۔
لاکھوں شہداء نے آزادیٔ کشمیر کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، تو ایسے میں تجارت جیسی باتیں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ البتہ، زندگی بچانے والی ادویہ کی حد تک بھارت سے تجارت ممکن ہے، لیکن ٹریڈ ڈپلومیسی آؤٹ آف کوئسچن ہے۔
س: لٹریچر سے کس حد تک دل چسپی ہے اور اِس ضمن میں کیا پسند ہے؟
ج: مجھے صوفیانہ کلام پسند ہے۔ صوفیانہ لٹریچر بھی بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ نہج البلاغہ، کشف المحجوب اور نسخۂ کیمیا میری پسندیدہ کتابیں ہیں۔میاں محمّد بخش، بابا بلّھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کا کلام بہت پسند ہے۔ میاں محمّد بخش کا کلام فنا و بقا کا تصوّر واضح کرتا ہے۔
ویسے جب آپ صوفیانہ کلام سے آشنا ہوتے ہیں، تو پھر آپ فینٹسی کی دنیا میں نہیں رہتے۔ (اِس موقعے پر وزیرِ اعظم آزاد کشمیر نے میاں محمّد بخش کا کلام بھی سُنایا؎ سو سو جوڑ سنگت دے ویکھے تے آخر وتھاں پئیاں…جِناں باہجوں اک پل نئیں سی لنگدا… اَج شکلاں یاد نہ رہیاں)۔مجھے عالم لوہار کی جُگنی بھی پسند ہے، مَیں بڑا قدامت پسند شخص ہوں، اب بھی جُگنی سُنتا ہوں۔
س: کیا وزیرِ اعظم آفس میں بھی سادگی کا کلچر اپنایا گیا ہے؟
ج: مَیں نے کفایت شعاری مہم کے تحت وزیرِ اعظم ہاؤس کے بجٹ پر میجر کٹ لگایا ہے۔ میرے آنے سے پہلے تو اخراجات بیان ہی سے باہر تھے۔ پی ایم آفس کا بجٹ64 کروڑ روپے تھا، جو مَیں نے کم کر کے31 کروڑ کردیا ہے۔ گزشتہ 21ماہ کے دَوران وزراء، سیکرٹریز اور سیاسی و انتظامی اشرافیہ کے لیے کوئی نئی گاڑی نہیں خریدی گئی، جب کہ فیول بلز کروڑوں سے لاکھوں پر لے آیا ہوں۔ صرف 19 جامعات کو گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں، جب کہ45کروڑ کی گاڑیاں نیلام کی ہیں۔ میرے ذاتی استعمال میں سوزکی کلٹس ہے، جب کہ خوشی، غمی کی تقریبات کے مواقع پر اپنی گاڑی استعمال کرتا ہوں۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟
ج: کھانے میں چاول اور راجما(لال لوبیا)بہت پسند ہے۔ جوانی لاہور میں گزری، تو وہاں حیدری کی حلیم بہت کھائی۔ اُس وقت حلیم کی پلیٹ پانچ روپے کی ملتی، جب کہ نان 3روپے کا تھا۔ لکشمی چوک میں بھی کھانے کھائے ہیں۔ انار کلی میں نہاری اور دیسی مرغ کی کڑاہیاں کھائیں۔
س: لاہور میں جوانی گزری، طبع رومان پرور تو ہوگی؟
ج: میری والدہ میرا مرشد خانہ ہے اور اُن ہی کے حُکم پر تینوں شادیاں کی ہیں۔ دراصل، اُنھوں نے اولادِ نرینہ کے لیے ایسا کرنے کا حُکم دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔ میاں محمّد بخش نے کہا تھا؎’’جس دل اندر عشق نہ رچیا، کُتّے اس توں چنگے…مالک دے گھر راکھی کردے صابر بھکے ننگ۔‘‘