آج کل اپنے منتخب کالمزکو کتابی شکل میں چھپوانے کے مراحل سے گزرا جا رہا ہے، کون سی تحریر شامل کی جائے اور کسے نظر انداز کر دیا جائے، اس سلسلے میں مشورت جاری ہے، زبان اور املاء کے مسائل میں بھی رہبری کی طلب رہتی ہے، اور کالمز کی ترتیب کیا ہونی چاہیے، اگر زمانی اعتبار سے ہو تو جدید سے قدیم کی طرف مراجعت ہو یا اس کے برعکس، اور اس طرح کے درجنوں سوال درپیش رہتے ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس ضمن میں ہمیں سربر آوردہ دوستوں کی راہ نمائی حاصل ہے۔
اسی دوران ایک کتاب نظر سے گزری، کتاب کا نام ہے ’’نظرنامہ‘‘، یہ محمود نظامی کا لکھا ہوا سفرنامہ ہے۔ مصنف نے کتاب کا ابتدائیہ ’’عذرِ گناہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس میں ان اصحاب کا ذکرِ خیر ہے جن کی راہ نمائی، تحریک یا مشورہ اس کتاب کے ظہور کا باعث بنے۔ پہلے ان لوگوں کے نام پڑھ لیں جو اس کتاب کا کسی طرح حصہ تھے پھر اگلی بات کرتے ہیں۔ محمود نظامی لکھتے ہیںکہ اس کتاب کی اولین تحریک ن۔م۔راشد کی طرف سے ہوئی جس میں اشفاق احمد بھی شامل ہو گئے، کتاب کا نام اور مضامین کے عنوانات شوکت علی تھانوی نے تجویز کئے، سید عابد علی عابد نے سب مضامین چھپنے سے پہلے سنے اور اصلاح کی، سید امتیاز علی تاج نے بھی اکثر مضامین سنے اور رائے دی، عبدالرحمٰن چغتائی نے سرورق عطا کیا، اور پھر ’’کتاب کو مرتب کر چکنے کے بعد اسے چھاپنے کے لیے جو تذبذب ہر نئے مصنف کے دل میں ہوتا ہے اس کا ازالہ سیّد ذوالفقار علی بخاری اور قرۃالعین حیدر نے کیا۔‘‘
یہ سب نام پڑھ کر پہلا خیال یہ آیا کہ اتنے بڑے بڑے لوگ، اپنے اپنے منطقے کے جِن، اور مصنف کی کیسی خوش بختی ہے کہ اسے ایسے دیو قامت اصحاب کی رائے میسر ہے، پھر دھیان میں وہ چہرے آئےجو آج ہمیں میسر ہیں کیا وہ ان قُدماء کی ہم سری کر سکتے ہیں؟ دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے لوگ دیو قامت نظر آنے لگتے ہیں، آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمیں ذاتی طور پر کئی ’’نوگزے‘‘ بزرگوں کی قبروں پر حاضری کی سعادت حاصل ہو چکی ہے اور کچھ مذہبی روایات کے مطابق باوا آدم کا قد نوے فُٹ تھا، لگتا یوں ہے کہ گردِ ماہ و سال بھی زیبِ داستان کے خوب کام آتی ہے۔
اگر اسی بحث کو سیاست کے میدان میں لے جائیں اور موجودہ اور ماضی کے سیاست دانوں کا موازنہ کیا جائے تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگلے وقتوں کے سیاست دان زیادہ قدآور، زیرک اور مخلص تھے؟ یا وہ جیسے شاعر نے کہا ہے کہ ’’کرتے ہو بات بات پر کیا آج کل کی بات...ہر دور میں رہے ہیں اسی طور آج کل‘‘ والی صورتِ احوال نظر آتی ہے۔ کیا پچھتر سال پہلے تقسیمِ برصغیر کے موقعے پر جو سیاست دان تھے وہ دیو قامت تھے؟ کانگریس اور مسلم لیگ کے جن سیاست دانوں نے تقسیم کا وہ فارمولا قبول کیا ہو گا جو لاکھوں لوگوں کے قتلِ عام پر منتج ہوا وہ زِیرک سیاست دان تھے؟ آج مُڑ کر دیکھیں تو کم از کم تقسیم کا یہ پہلو دیوانگی محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے بعض سرکردہ سیاست دان تقسیم کے وقت اپنے بنگلے ہندوستان میں اس امید پر چھوڑ کر آ رہے تھے کہ آنا جانا تو لگا ہی رہے گا۔ وہ دور اندیش سیاست دان تھے؟ جب ہم بنگالیوں کو رُوبہ رُو یہ کہہ رہے تھے کہ نئی ریاست میں تم آج سے ’’گونگے‘‘ قرار دیے جاتے ہو اور تمہاری زبان دوسرے درجے کی زبان ہو گی تو کیا وہ دور اندیشی کا مظاہرہ تھا؟ سیاست دان پہلے بھی ایسے ہی ہوتے تھے، اور آج بھی لگ بھگ ویسے ہی ہیں، خوبیوں اور خامیوں کے مرکب۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مفتی محمود اور ان کے فرزند کو تاریخ غالباً یک ساں نظر سے دیکھے گی، یہی معاملہ عبدالصمد اچکزئی اور ان کے فرزندکا بھی دکھائی دیتا ہے۔ زمانی فاصلہ اکثر التباس پیدا کرتا ہے، جیسے ڈھلتے سورج میں سائے لمبے ہو جاتے ہیں۔ زبان و ادب کا بھی لگ بھگ یہی معاملہ ہے، میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ جیسے نابغوں کی تلاش میں تو ’’پھرتا ہے فلک برسوں‘‘، دوستووسکی اور شیکسپیئر جیسے جِن تو کبھی سینکڑوں سالوں میں حادثاتی طور پر بوتل سے نکل آتے ہیں، یہ لوگ عجوبہ روزگار ہوا کرتے ہیں۔ان سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو ’’ہر دور میں رہے ہیں اسی طور آج کل۔‘‘ پچھلی اتوار فیض فیسٹیول کے مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا، عالی شان شاعر اور عمدہ کلام، اسی سطح کی شاعری لال قلعہ دلّی میں پڑھی جاتی رہی ہو گی۔ ساتھ والے ہال میں خالد احمد کو یاد کیا جا رہا تھا، ان سے زیادہ صاحبِ مطالعہ اور بالغ نظر صحافی پہلے بھی ہوتے ہونگے مگر ہمارے علم میں نہیں۔
محمود نظامی کی کتاب آج سے تقریباً ستّر سال پہلے چھپی تھی، اور آج سے ستّر سال بعد اگر کوئی میرے کالموں کے مجموعہ کا ابتدائیہ پڑھے گا اور اسے معلوم ہو گا کہ حماد غزنوی کو کالم کی بُنت اورہیئت کو سمجھنے میں قبلہ عطاالحق قاسمی کی راہ نمائی حاصل تھی، ملکی سیاست کے زِیروبم کی شرح کے لیے جناب سہیل وڑائچ کی رفاقت حاصل تھی، زبان کے مسئلوں پر بحث کے لیے حضرت وجاحت مسعود میسر تھے، عربی فارسی کی گتھیاں سلجھانے کے لیے استاذُ الاساتذہ ڈاکٹر خورشید رضوی موجود تھے، ادبی گنجل کھولنے کے لیے بھائی احمد جاویدکی امامت حاصل تھی، تو یقیناً اُس قاری کو وہی احساسِ کم تری آن لے گا جس کا سامنا مجھے ’’نظر نامہ‘‘ کا ابتدائیہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔
چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ سائنسی تحقیق کے بعد اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قریباً ایک لاکھ سال پہلے انسان کے جدِ امجد نیندر تھل کا اوسط قد پانچ فُٹ چار انچ تھا۔