خیبرپختونخوا حکومت نے کرم میں دہشت گردوں کے سروں کی قیمتیں مقرر کردیں، 14دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 13کروڑ 30 لاکھ روپے طے کی گئی ۔یہ خبر پڑھ کر میں نے کسی سے پوچھا کہ ضلع کرم کی صورتحال مسلسل کیوں خراب ہے ۔اصل معاملہ کیاہے ۔تو پتہ چلا کہ پاکستان کی یہ جنت نظیر وادی دراصل اہم ترین اسٹرٹیجک اور جغرافیائی اہمیت رکھتی ہے ۔یہ ضلع افغانستان کے تینوں صوبوں ننگرہار ، خوست اور پکتیا سے متصل ہے ۔یہاں تازہ ترین کشیدگی جولائی دوہزار چوبیس میں اس وقت عروج پر پہنچی جب دو ممتاز مقامی قبائل مدگی اور مالی خیل کے درمیان زمینی تنازعہ فرقہ وارانہ صورت اختیارکر گیا۔ تنازعہ ثالثی کے ایک اجلاس میں شروع ہوا۔ پرامن بات چیت ، افراتفری میں تبدیل ہو گئی ۔ ابتدائی طور پر، لڑائی چندجھڑپوں تک محدود تھی مگرجیسے ہی فریقین مشین گنوں اور مارٹروں جیسے بھاری ہتھیاروں سے مسلح ہوئے تو تشدد میں خوفناک تیزی آتی گئی ۔جولائی کے آخر تک، ہلاکتوں کی تعداد 35 تک پہنچ گئی تھی، 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ۔ مقامی تنازع پورے ضلع میں پھیل گیا۔پھرملک دشمن عسکریت پسنداس طرف متوجہ ہوئے اور فرقہ واریت کی بارودی سرنگیں بچھاتے چلے گئے ۔ نومبر تک صورتحال مزید بگڑ گئی، جب پولیس کے حفاظتی قافلوں کو گھات لگا کرنشانہ بنانے والوں کے حملے کے نتیجے میں صرف 21نومبر کو مزید 52ہلاکتیں ہوئیں۔ چند ہفتوں کے اندر،تعداد المناک طور پر 124 اموات تک پہنچ گئی، کم از کم 178زخمی ہوئے۔ دسمبر 2024ءتک، جاری تشدد نے ہلاکتوں کی تعداد 130 سے تجاوز کر دی، جس میں 186 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔
تشدد کے نتائج فوری طور پر جانی نقصان سے کہیں زیادہ بڑھ گئےخوفناک کراس فائر کے سبب مکان ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں، اسکول اور اسپتال ،شدید طور پر درہم برہم ہوئے ۔لوگوں کو خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاکی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔ خطے کے طویل مدتی امکانات کو نقصان پہنچا۔سماجی ہم آہنگی، جو پہلے سے ہی تاریخی شکایات کے بوجھ تلے جاں بلب تھی، دم توڑ گئی ۔ تشدد کے مسلسل خطرے نے بداعتمادی اور خوف کی فضا کو فروغ دیا، جس سے تقسیم شدہ لوگوں کو آپس میں ملانا مشکل ہوتا گیا ۔ تشدد کی لہر کو روکنے اور امن و امان کی بحالی کےلئے خیبر پختونخوا حکومت نے ایک کثیر الجہتی حکمت عملی کا آغاز کیا جو فوری طور پر سیکورٹی کے چیلنجوں اور تنازعات کی بنیادی وجوہات دونوں سے نمٹنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ وسیع پیمانے پر عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے تخفیف اسلحہ کی کوششیں کی گئیں ، قانونی کارروائیاں تیز تر کی گئیں اور ان میں قبیلوں کی شمولیت کو ضروری بنایا گیا۔ پورے ضلع میں سیکورٹی فورسز کو تعینات کیاگیا۔
مسلح گروپوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ان کو محدود کرنے کیلئے، خاص طور پر اہم ٹرانزٹ راستوں جیسے کہ کرم ہائی وے کیساتھ، 75 اسٹرٹیجک چوکیاں قائم کی گئیں۔ مزید برآں، وفاقی حکومت سے خصوصی فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) یونٹس کی تعیناتی کیلئے درخواستیں کی گئیں تاکہ مقامی سیکورٹی کو تقویت دی جا سکے اور قانون نافذ کرنے والے آپریشنز کی مدد کی جا سکے۔نجی بنکروں کو ختم کرنے اور اسلحہ ضبط کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ متحارب دھڑوں کے درمیان ثالثی کے لیے ایک گرینڈ جرگہ بلایا گیا۔ امن کے عمل میں تمام آوازوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ۔فرقہ وارانہ نفرت کے شعلوں کو بھڑکانے والی اشتعال انگیز بیان بازی کو روکنے کے لیے حکومت نے فیصلہ کن قانونی اقدامات اٹھائے۔ تشدد بھڑکانے اور نفرت انگیز تقاریر پھیلانے کے ذمہ دار افراد اور گروہوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا، نئی نافذ کردہ دفعات کے تحت سخت قانونی کارروائیوں کے ساتھ ان اقدامات نے تفرقہ انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ایک روک ٹوک اور علامتی موقف کا کام کیا۔
افراتفری کے درمیان، حکومت نے شہریوں کی بہبود کو بھی ترجیح دی۔ ایک جامع ریلیف پیکیج کی منظوری دی گئی جس میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے لیے مالی معاوضہ کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کھونے والوں کے لیے امداد بھی شامل تھی۔ سڑکوں کی رکاوٹوں کی وجہ سے طبی سامان کی شدید قلت کے جواب میں، ہیلی کاپٹر کی خدمات کو سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ضروری ادویات اور صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ انسانی ہمدردی کی کوششیں عوام کے فوری مصائب کو دور کرنے اور طویل مدتی بحالی کی بنیاد ڈالنے میں اہم تھیں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ذرا سی بھی بیرونی مداخلت کس قدر گہرے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
اگرچہ کرم میں پائیدار امن کا راستہ طویل اور چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اب تک اٹھائے گئے اقدامات ایک متوازن نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں- میں سمجھتا ہوں کہ صرف مسلسل مکالمے اور انصاف کے عزم کے ذریعے ماضی کے زخم مندمل ہونا شروع ہو سکتے ہیں ۔صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ہوئے قبائل میں ایسے خونی فسادات کا پس منظر قطعاً سادہ نہیں۔ حکومت کو اسکامطالعہ اور زیادہ گہرائی سے کرنا چاہئے ۔افغانستان کیساتھ بھی خاص طور پر اس موضوع پرگفتگو ہونی چاہئے کیونکہ جتنے لوگوں کے سروں کی قیمت لگائی گئی ہے ۔اطلاع یہی ہے کہ وہ افغانستان میں ہیں ۔