• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک کالم میں کراچی کی بربادیوں کا تذکرہ کیا کیا کہ لوگوں نے میرے سامنے داستانوں کا انبوہ کثیر لگا دیا، داستانیں پڑھتا گیا، دل دکھی ہوتا گیا، کچھ ویڈیو کلپس نظر سے ایسے گزرے کہ دل خون کے آنسو رونے لگا کہ کراچی جیسے شہر میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں، کبھی ایسے لگا کہ جیسے کراچی میں گینگسٹر رہتے ہوں، میں تو ایک عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ کراچی میں مافیاز کا راج ہے اور مافیاز شہر کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں مگر یہ جو داستانیں میرے سامنے آئیں، انہوں نے اس پہ مہر تصدیق ثبت کر کے رکھ دیا۔ داستانوں کے اس ڈھیر میں سے ایک ایسی داستان سامنے آئی کہ میں رک گیا کیونکہ یہ داستان ایک استاد کے بچوں سے متعلق تھی، ہمارا معاشرہ اساتذہ کو سکھ دینے کی بجائے دکھی کرتا ہے اور اس پہ انتظامیہ کو لمحے بھر کی ندامت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید کئی کتابوں کے مصنف ہیں، عالمی روحانی کونسل کے سربراہ ہیں، کراچی یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ رہے، ڈین رہے اور کچھ عرصہ کراچی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر رہے۔ بہت نفیس انسان ہیں، کراچی کے ہزاروں نوجوان ان کے شاگردوں میں شامل ہیں مگر ہزاروں طلباء کو پڑھانے والے ڈاکٹر عبد الرشید آج کل دکھوں کی بستی کے باسی ہیں، دل اُچاٹ ہو چکا ہے اور اب کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان سے باہر رہا جائے، کراچی آتے ہیں تو یادیں ڈستی ہیں، ان کیساتھ عجیب معاملہ ہوا۔ ڈاکٹر عبد الرشید کے دو جوان بیٹوں دانش رشید اور ڈاکٹر جنید رشید کو ستمبر 2017ء میں اغوا کیا گیا، ڈاکٹر عبد الرشید کے لئے ستمبر، ستم گر بن گیا۔ دونوں بیٹوں کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروائی گئی مگر یہاں خالی ایف آئی آر درج کروانے سے کہاں کامیابی ملتی ہے؟ یہاں تو پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں… برس ہونے کو ہیں ڈاکٹر عبد الرشید نے اپنے بچوں کی واپسی کے لئے اس ملک کے بڑے سے بڑے دروازے کو کھٹکھٹایا مگر ہر دروازے پر ناکامی کا تالا لگا ہوا نظر آیا۔ بوڑھے باپ کے لئے جوان بچوں کی جدائی کس قدر دکھی ہوتی ہے، اس کو جاننے کے لئے اگر آپ قرآن اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس میں باپ، بیٹے کی جدائی میں رو رو کر بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا ہے جو اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی جدائی پر دن رات رویا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے خاص کرم کیا اور پھر حضرت یعقوب کو حضرت یوسف علیہ السلام کے زندہ ہونے کا بتا دیا۔ خدائے لم یزل کتاب حکمت یعنی قرآن پاک میں انبیاء کی مثالیں اس لئے دیتا ہے کہ وہ انسانوں کے لئے رول ماڈل ہیں، خدائے بزرگ و برتر انسانوں پر آنے والی خزاں و بہار کے لمحات مثالوں سے واضح کرتا ہے کیونکہ ڈاکٹر عبد الرشید شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ رہے ہیں، انہیں بھی دل کے حوصلے کیلئے یہ مثال سامنے رکھنی چاہئے، باقی اس ملک کے کرتا دھرتا اداروں سے میری درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر عبد الرشید کے زخموں پر نہ صرف مرہم رکھیں بلکہ انکے بچے بازیاب کروائیں، پولیس کے پاس ساری تفصیلات موجود ہیں، انصاف مہیا کرنے والے اداروں سے بھی یہی درخواست ہے کہ وہ ایک بوڑھے پروفیسر سے انکے بچوں کا ملاپ کروائیں کہ بچوں کی ماں جدائی کے صدمات کے باعث اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر پروفیسر عبد الرشید بھی دل میں یہی ارمان لئے دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ یہ حساب آج نہیں تو کل انتظامیہ، اداروں اور ریاست کو دینا پڑے گا۔ خدا کے روبرو تو زمیں کی طاقتور ترین شخصیات کو بھی پیش ہونا ہے، حساب تو سب کو دینا پڑے گا۔ یاد رہے کہ خدا حساب ضرور لیتا ہے، سو ہمیں دنیائے ہست و بود میں ظلم کی داستانوں کی حمایت تو نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہماری کوشش مظلوم کی داد رسی ہونی چاہئے کہ بقول وصی شاہ

اگر تو یاد رکھ پائے تجھے اک بات بتلاؤں

کلہاڑی بھول جاتی ہے شجر کو یاد رہتا ہے

تازہ ترین