بد قسمتی سے یوں تو پاکستان میں کوئی سرکاری شعبہ ایسا نہیں کہ جو اپنی کارکردگی کی بدولت عوام کی توقّعات پر پورا اُترتا ہو۔ صارفین جب بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی سرکاری ادارے کا رُخ کرتے ہیں، تو عام طور پر وہاں موجود عملہ فوری طور پر مسئلہ حل کرنے کی بہ جائے مختلف عذر تراش کر شہریوں کو کئی چکر لگانے پر مجبور کرتا ہے۔
گرچہ دیگر شعبوں میں شہری اس ’’سُرخ فیتے‘‘ کے رُجحان کو برداشت کر لیتے ہیں، لیکن اگر علاج معالجے سے وابستہ اداروں میں بیڈ گورنینس اور غفلت و لاپروائی عام ہو جائے، تو اس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کوسنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
دُنیا بَھر میں طبّی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں میں کسی بھی قسم کی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن پاکستان میں یہ شعبہ بھی بد انتظامی کا شکار ہے اور سرکاری اسپتالوں اور نجی کلینکس میں آئے روز علاج معالجے میں غفلت کے سبب مریضوں کی اموات اور اس کے ردِ عمل میں ڈاکٹرز اور عملے پر تشدّد اور اسپتالوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ گرچہ بعد ازاں ان سنگین واقعات کی چھان بین کے لیے انکوائری کمیٹیزتشکیل دی جاتی ہیں، لیکن ان کے نتائج سامنے نہیں آتے، جس کی وجہ سے اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کی غفلت کے سبب قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کی غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند ماہ قبل نشتر اسپتال، ملتان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کا ڈائیلیسز کرنے والی مشینز کی مدد سے دیگر مریضوں کے گُردوں کی صفائی کی گئی، تو انہیں بھی ایڈز کا مرض لاحق ہو گیا، جب کہ پہلے اُن میں ایڈز کی علامات موجود نہیں تھیں۔
یہ سنگین واقعہ سامنے آنے کے بعد صوبائی وزیرِ صحت نے چار ارکان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے ارکان نے متاثرہ مریضوں سے ملاقات کی اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ تاہم، مذکورہ انکوائری کمیٹی کے نتائج تاحال سامنے نہیں آ سکے۔ گزشتہ دنوں نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی زیرِ گردش رہیں، جن کی بعد میں تردید کر دی گئی۔ حال ہی میں ایسا ہی ایک کیس صوبۂ سندھ میں بھی سامنے آیا، تو اندازہ ہوا کہ سرکاری اسپتالوں میں اس قسم کے واقعات عام ہیں، جو کبھی کبھار میڈیا کی توجّہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ لاڑکانہ کے میڈیکل کالج اسپتال میں جب عام مریضوں کے گُردوں کی صفائی ایڈز کے متاثرہ افراد کا ڈائیلیسز کرنے والی مشینز پر کی گئی، تو اُنہیں بھی ایڈز کا مرض لاحق ہوگیا اور اس موذی مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد 26بتائی گئی۔ اس واقعے کے بعد ’’سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ کے حُکّام کو ہوش آیا اور انہوں نے یہ ہدایات جاری کیں کہ پورے صوبے میں مریضوں کے گُردوں کی صفائی کرتے وقت دُنیا بَھر میں رائج ڈائیلیسز کےایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
بعد ازاں، جب محکمۂ صحت کے حُکّام نے مختلف اسپتالوں میں ڈائیلسیز کرنے والی مشینز اور گُردوں کی صفائی کے طریقۂ کار کا معائنہ کیا، تو معلوم ہوا کہ اس پراسس کے دوران اکثر و بیش تر ڈائیلیسز کے بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، حالاں کہ دُنیا بَھر میں ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
بالخصوص ڈائیلیسز کرنے والے ٹیکنیشنز غفلت و لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نیز، بیش تر ٹیکنیشنز تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے اور اکثر اوقات ڈائیلیسز کسی مستند نیفرالوجسٹ کی زیرِ نگرانی نہیں کیا جاتا، جب کہ دُور دراز علاقوں میں واقع سرکاری اسپتالوں میں تو یہ عمل عام ڈاکٹرز کی سرپرستی ہی میں انجام دیا جاتا ہے، جو ڈائیلیسز کے تقاضوں اور پیچیدگیوں سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے۔
لاڑکانہ کے اسپتال میں پیش آنے والے اس افسوس ناک واقعے کی تفتیش کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ گُردوں کی صفائی کرتے وقت اکثر مریضوں میں غیر معیاری خُون منتقل کیا جارہا تھا، جس کی وجہ سے اُن کا مرض مزید بگڑرہا تھا۔ نتیجتاً، کندھ کوٹ میں 6 اور قمبرشہداد کوٹ میںناقص خون کی ترسیل کرنے والے 16بلڈ بینکس کو سِیل کردیا گیا۔ اس ضمن میں ماہرینِ طب کا ماننا ہے کہ ملتان اور لاڑکانہ کے اسپتالوں میں رُونما ہونے والے واقعات اتفاق سے منظرِ عام پر آگئے۔
بہ صورتِ دیگر مُلک کے چھوٹے شہروں اور دُور دراز علاقوں میں قائم تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں اس قسم کے واقعات عام ہیں، جو کبھی سامنے نہیں آپاتے اور ڈاکٹرز اور عملے کی غفلت کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بننے والے مریضوں کے لواحقین بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ نیز، اعلیٰ حُکّام ان سنگین واقعات سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔
پاکستان میں گُردوں کی صفائی کی مجموعی صُورتِ حال سے متعلق سینئر کنسلٹنٹ نیفرالوجسٹ، پروفیسر ڈاکٹر اعزاز مند احمد کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہمارے جسم میں موجود فاسد مادّوں کی صفائی کا کام انجام دینے والے گُردوں کی کارکردگی 15فی صد سے کم ہو جائے، تو پھر مستقلاً ڈائیلیسز کروانا پڑتا ہے۔ اس عمل میں ایک خصوصی مشین کے ذریعے مریض کا خُون صاف کیا جاتا ہے۔ یعنی پہلے جو کام گُردے کرتے تھے، وہ ڈائیلیسز کے ذریعے مشین انجام دیتی ہے۔
عام طور پر گُردوں کے مریضوں کو ہفتے میں دو مرتبہ اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور اگر ڈائیلیسز بھی کارآمد ثابت نہ ہو، تو پھر کڈنی ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے، جس میں پیوند کاری کے ذریعے کسی دوسرے شخص (بالخصوص خُونی رشتے دار) کا عطیہ کردہ گُردہ مریض کے جسم میں لگایا جاتا ہے، لیکن ہر مریض کو کسی دوسرے فرد کا گُردہ نہیں لگایا جا سکتا اور اس سلسلے میں عُمر سمیت دیگر عوامل کو مدِنظر رکھنا پڑتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اعزاز مند نے بتایا کہ ’’دُنیا میں میڈیکل سائنس کے دیگر شعبوں کی طرح ڈائیلیسز کے میدان میں بھی خاصی ترقّی ہو رہی ہے۔ ڈائیلیسز کرنے والی جدید مشینز خُون کے فاسد مادّوں کو جسم سے خارج کرنے کی عُمدہ صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں اور یہ عمل ایک ماہر و مستند نیفرالوجسٹ کی زیرِ نگرانی ٹیکنیشنز انجام دیتے ہیں۔ ان ٹیکنیشنز کو مخصوص تربیّتی اداروں میں گُردوں کی صفائی کی خصوصی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
نیز، یہ ٹیکنیشنز مریض کی دیکھ بھال میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ اس وقت دُنیا بَھر میں سب سے زیادہ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کا ڈائیلیسز ہو رہا ہے اور اس کے بعد بلڈ پریشر اور دیگر موروثی امراض میں مبتلا افراد کا نمبر آتا ہے۔ علاوہ ازیں، درد شکن (پین کِلرز) ادویہ کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بھی گُردے خراب ہو سکتے ہیں۔ ہر چند کہ حاملہ خواتین کے گُردے خراب یا ناکارہ ہونے کی تعداد خاصی کم ہے، لیکن اگر ان کے گُردے ناکارہ ہو جائیں، تو انہیں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ گُردوں کے دیگر مریضوں کی نسبت اُن کی صحت بہتر ہوتی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ممتاز نیفرالوجسٹ کا کہنا تھا کہ ’’ مشینز کے ذریعے گُردوں کی صفائی کے عمل میں مریض کو سرنجز لگائی جاتی ہیں اور ہر پراسس میں نئی ڈسپوز ایبل سرنجز استعمال کی جاتی ہیں۔ ڈائیلیسز کے دوران بعض اوقات انفیکشن کی وجہ سے مختلف پیچیدگیاں بھی سامنے آتی ہیں، جیسا کہ بلڈ پریشر کا اُتار چڑھاؤ، قے آنا اور سردی لگنا وغیرہ۔ البتہ اگر گُردوں کی صفائی کے دوران استعمال ہونے والے تمام آلات معیاری اور صاف سُتھرے ہوں، تو پھر انفکیشن کےامکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
مزید برآں، اس عمل میں خُون کی منتقلی اور سرنجز کے استعمال کے سبب مریضوں کو ہیپاٹائٹس بی اور ایچ آئی وی لاحق ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا، ڈائیلیسز کے دوران ایس او پیز پر عمل درآمد بے حد ضروری ہوتا ہے، جب کہ بہ ظاہر مشین کے اندر کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہوتی کہ جس سے مریض کو انفیکشن ہو جائے۔‘‘
ڈاکٹر اعزاز مند کا مزید کہنا تھا کہ’’ ترقّی یافتہ ممالک میں ایک ہی مشین پر ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کے مریضوں کا ڈائیلیسز کیا جاتا ہے، لیکن خُون کی منتقلی کے دوران خاصی احتیاط کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے مریضوں میں یہ مرض منتقل نہیں ہوتا۔ البتہ ہیپاٹائٹس بی کے شکار مریضوں کے لیے علیحدہ مشینز مختص ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ مرض بہت تیزی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے۔
نیز، اب ہیپاٹائٹس سی کا علاج بھی ممکن ہے اور ادویہ کے استعمال سے دو سے تین ماہ میں اس مرض سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ گُردوں کی صفائی کے دوران احتیاطی تدابیر کے حوالے سے سینئر نیفرالوجسٹ کا کہنا تھا کہ ’’جن ڈائیلیسز سینٹرز میں ٹیکنیشنز دستانے پہن کر سرنجز لگاتے، نکالتے ہیں اور ایک سے دوسرے مریض تک جانے سے پہلے ہاتھ دھوتے اور دستانے تبدیل کرتے ہیں، وہاں امراض کی منتقلی کاخطرہ بہت کم ہوتا ہے۔
چُوں کہ ہمارے ہاں عام طور پر خُون دینے سے قبل ڈونر کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی ڈونر ایڈز کا مریض ہو، تو ڈائیلیسز کے دوران اس کا خُون مریض کے جسم میں منتقل ہونے سے وہ بھی ایڈز میں مبتلا ہو سکتا ہے، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں ڈائیلیسز سے قبل خُون ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور پھر اگلے مراحل میں بھی مانیٹرنگ جاری رہتی ہے، جس سے گُردوں کی صفائی کے دوران امراض کی منتقلی کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر اعزاز مند احمد نے بتایا کہ ’’پاکستان میں عام طور پر ڈائیلیسز کے دوران اس پراسس کے مروّجہ اصول و ضوابط پر عمل درآمد میں کوتاہی برتی جاتی ہے اور مسئلے کی جڑ بھی یہی ہے۔ مُلک کے اکثر سرکاری اسپتالوں میں کسی مستند نیفرالوجسٹ کی عدم موجودگی ہی میں گُردوں کی صفائی کی جاتی ہے اور اس دوران ٹیکنشنز بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
چُوں کہ عام طور پر ٹیکنیشنز ایک مریض کا ڈائیلیسز کرنے کے بعد اپنے دستانے صاف کیے بغیر ہی دوسرے مریض کا پراسس شروع کر دیتے ہیں، تو اسی سبب اگر پہلے والے مریض کو کوئی دوسرا مرض بھی لاحق ہو، تو وہ دوسرے مریض میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں نجی اسپتالوں میں کسی حد تک ایس او پیز پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور وہاں نیفرالوجسٹ ہی کی زیرِ نگرانی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سے مشینز کی صفائی بھی کی جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’’صرف ہیپاٹائٹس بی سے متاثرہ مریضوں کے ڈائیلیسز کے لیے علیحدہ مشین استعمال کی جاتی ہے، جب کہ باقی تمام مریضوں کے گُردوں کی صفائی کسی بھی مشین پر ہو سکتی ہے۔ البتہ اس دوران مریض کو انفیکشن سے بچانا ڈاکٹرز اور عملے کی ذمّے داری ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں صفائی سُتھرائی اور ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
چُوں کہ ہمارے مُلک میں نیفرالوجسٹس کی تعداد خاصی کم ہے، تو ہمیں ڈائیلیسز کرنے والے عملے یعنی ٹیکنیشنز کی تربیت پر خصوصی توجّہ دینی چاہیے اور اس ضمن میں ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے، قصور مشین کا نہیں ، بلکہ اُسے آپریٹ کرنے والے کا ہوتا ہے۔‘‘