قارئین کرام!
متوجہ ہوں، یہ درست ہے کہ 8فروری کو اپنی پسند کی تشکیلِ حکومت کیلئے عوامی مین ڈیٹ کو، نگران حکومت کے تحت حکومتی مشینری، خصوصاً اور مکمل با اختیار الیکشن کمیشن کے باثبوت اقدامات نے اور اب تو عالمی رائے عامہ کے مطابق روند کر رکھ دیا۔ وہ ہوا اور بے پناہ ہوا، جو سراپا برا اور کبھی نہ ہوا تھا۔ لیکن متنازعہ حکومت کے ایک سال کے بعد جو مجموعی ملکی صورت حال بنی ہے اس میں بقول اپوزیشن اور سوشل میڈیا غضب شدہ مین ڈیٹ کی بازیابی تو ایک طرف اس کیخلاف تادم حق احتجاج حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ سال بھر کی ملک بھر اور بیرون ملک تک پاکستانی عوامی (ایٹ لارج) احتجاج کی چیخ پکار، مایوسی اور آئینی حکمرانی کے خواب چکنا چور ہونے پر متنازعہ ہی سہی جیسے تیسے ایک حکومت اسٹیٹس کو کے بیزار و بیمار سسٹم میں ہی سہی بن تو گئی۔ سال بھر سنسی خیز خبریں آتی رہیں کہ ’’اب گئی اور تب گئی‘‘ لیکن غلط اندازوں کے غلط ہونے کے بعد قائم تو ہے۔
یہ تو ہم جیسے دل جلے اور بڑ بڑ کرتے ہر دم ناقدین عشروں کے نظام بد میں برسوں سے پڑے کانٹوں کی نشاندہی کرکے مایوسی پھیلانے والے نہیں مانتے کہ ملکی ڈولتی معیشت میں ڈیفالٹ کو چھوتی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ بقول خواجہ اسٹیٹس کو وینٹی لیٹر پر لگے مریض کو آخر واپس بستر پر لٹا دیاگیا ہے۔ بلاشبہ یہ کو ئی حکومتی کارنامہ نہیں، اس کی اصلیت تو یہ ہےکہ آئی ایم ایف کی عوام کو بے قابو مہنگائی سے آدھ موا کرنے والی کڑی شرائط کو تسلیم کرکے، انہیں مسلسل ہراساں کرنے پر بھی تیزی سےمفلوک ہوتے عوام کا حیران کن صبر جمیلہ اس ڈیفالٹ سے بچت کا سبب بنا۔ ہاں! وزیر اعظم شہباز کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے عوام کو پے در پے کڑوی گولیاں بلاچوں و چرا نگلوانے کے لئے تیار کرنے میں اپنی مہارت دکھائی ، اور اس میں رہی سہی سیاسی کمائی لگا دی۔ جبکہ بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی و وصولی پر حسب معمول ناکام رہے۔
اس پرسوال کرتے ہی اتحادی کوئوں کی طرح کائیں کائیں کرتے سراپا سیاہ ملبوس میں شور مچاتے ہیں، ان کا احتجاج کمزور حکومتوں اور خود متنازعہ حکومتوں کے لئے آئی ایم ایف کے دبائو جتنا موثر ہوتا ہے جو ٹیکس وصول کرالیتی ہے اور ٹیکس بیزار اشرافیہ بالآخر عوام کے مقابل اتنے احتجاج سے اپنا مطلب نکال لیتی ہے۔
ایک سالہ گورنمنٹ۔ 47کی جزوی کامیابی، بابائوں اور بھاری بھر اصل ٹیکس ادائیگی سے نالاں ’’فاتحین عدم ادائیگی بمطابق‘‘ اور احتجاجی کوئوں کے مقابل لیتے جاتےعوام کی سکت برابر عدم قبولیت اور اپنی پوزیشن پراڑےرہنے کی ڈھٹائی کے اس منظر میں ایک بار پھر وزیر اعظم شہباز کے روایتی لیکن زور دار عزم کا اظہار ہوا ہے، لگتا ہے شاہ مدار کی اختیاراتی چیرہ دستیوں سے عوام سے مہنگی ترین بجلی و گیس و پٹرول اور کمر توڑ جنرل سیلز ٹیکس کے ذریعے عین آئی ایم ایف کی مرضی کے ٹیکسوں کی وصولی سے ملک ڈیفالٹ سے جو بچ گیا اور جناب وزیر اعظم ریلیکس ہوگئے ہیں۔ اب اصل اور فوری کام پریشان و بے بس اور فسطائیت سے ہراساں کم از کم عوام کو تسلی تشفی دینا ہے۔ کم تر درجے پرقیمتیں بازار و مارکیٹ میں تو دور دور تک ندارد ہیں ، بابائوں کی فائلوں میں کیا دکھایا جا رہا ہے، اس پر نہ رہیں کوئی فعال مخبر ادھر بھی لگا دیں، جو اصلی خبریں دے، سوشل میڈیا پر تو آپ کا اعتبار ہو نہیں سکتا۔
مین اسٹریم میڈیا اکتفافقط مارکیٹ کمیٹیوں کے نکلے نرخوں پر کرتا ہے اور اپنے تئیں سرخرو کہ ہمارے ایجنڈے میں سرکار و دربار کی خبروں کے علاوہ مہنگائی کی خبروں کا ادھورا سہی اتمام حجت ہے۔ تاہم وقت کی انتہائی اہم ضرورت ،جس پر ’’ہم دل جلے اور خوابوں کی آئیڈیل دنیا میں رہنے والوں کا دل بھی ٹھکتا ہے‘‘ کو شہباز صاحب نے اپنے دور پریشاں میں عرصے بعد ایڈریس کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کی اس پروپیپل اور تازہ بیانئے پر بات کی جائے، واضح کرنا لازم کہ یہ یوں ہی تازہ ہے کہ مدت بعد یہ عزم صمیم دہرایا گیا ہے، وگرنہ یہ ان کی جانب سے روایتی بھی ہے، وہ یہ میٹھی گولی اور خواب دکھانے مانند تین انتخابی مہمات میں بڑے زور شور سے عوامی انتخابی ریلیوں اور جلسوں میں بیان کرتے رہے ہیں جس میں یہ بیانیہ بھی شامل ہے کہ:’’ نظام موجود گل سڑ گیا ہے۔ یہ نہیں چلے گا۔
یہ عوام دشمن ہے‘‘ ایک اور ہم دل جلے مڈل کلاسیوں کے مطلب کی بات، لیکن وعدوں وعید پورے ہونے کے انتظار مسلسل میں اب تو کتنوں کا سفر قبر تیز تر ہوگیا۔ فرمایا ’’کھربوں روپے کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، بدعنوان عناصر سے ایک ایک پائی وصول کرکے عوامی فلاح پر خرچ کریں گے‘‘۔پھر یہ عزم کہ وہ ملکی لوٹی دولت پیٹوں سے بھی نکال لیں گے۔ پی پی کی حکومت میں بھی سوئس بینک سے فقط 60ملین ڈالر کا مال مسروقہ نکلوانے کے لئےمیاں صاحب کالے کوٹ میں ملبوس احتساب عدالت میں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے پیشیوں پر جاتے لیکن آپ جب احتساب میں اپنا بطور اپوزیشن لیڈر کردار ادا کرنے کے بعد اقتدار میں آئے تو پاکستانی سیاسی ابلاغ میں فرینڈلی اپوزیشن کی ۔اب اس دل جلے کی جانب سے ملین ڈالر ٹپ جناب شہباز شریف کی خدمت میںیہ جتاتے پیش کی جا رہی ہے کہ مجھ دل جلے کے کالمی آرکائیو سے وہ پانچ سات ’’آئین نو‘‘ کا مطالعہ فرمائیں جس میں آپ کو ہارس ٹریڈنگ میں سرگرم فرینڈلی پارٹنر سے دور رہنے اور اس بنیاد پر نحیف حکومت کے خاتمے سے اپنی جماعت کے سب سے زیادہ امکانی خسارے کے کھیل سے بچنے نے کہا۔
اب ٹپ یہ ہے کہ:یہ پائی پائی نکلوانے کے بے اثر سیاسی بیانیوں کو ترک کرکے، دل جلا آپ کو 200 بلین ڈالر کی قابل برآمدگی کی راہ دکھارہا ہے۔ اس پر ہم رکاب جناب اسحاق ڈار سے آج ہی کام شروع کردیں۔ انہوں نے 9مئی 2014 کو قومی اسمبلی میں رکن اسمبلی جناب عارف علوی کے ایک سوال کے جواب میں بہت سکہ بند رپورٹ پیش کی تھی جس میں اس امر کی تصدیق کی تھی کہ پاکستانیوں کے 200بلین ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں، جن کے نئی سوئس قانون سازی سے پاکستان واپس لینے کی گنجائش موجود ہے۔ اس پر میں دو کالم جملہ تفصیلات کے ساتھ عارف علوی صاحب کے صدر مملکت ہونے کے دوران تحریر کر چکا ہوں جبکہ ان کی اور جناب اسحاق ڈار کی بحران کو ختم کرنے کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ دونوں کو دو مرتبہ کالم میں ہی ایڈریس کیا لیکن کوئی خامشی سی خامشی تھی، ماجرا سمجھ نہ آیا۔ جناب وزیر اعظم اب پائی پائی نکلوانے کا بیانیے ترک 200بلین ڈالر جس کی تصدیق سوئس معتبر ذرائع بھی کرتے ہیں، موجود ہیں، بسم اللہ پڑھیں، کوئی موثر اقدام اٹھاتے جیسے الیکشن کی طرف جانے اور اس کی فضا بنانے کے لئے سیاسی قیدیوں کی رہائی۔ یقین کریں سو بلین بھی آگئے یا کیس پراسس میں بھی آگیا تو ن لیگ کے کسی بڑے فیصد میں کم بیک کے امکان روشن۔
وما علینا الالبلاغ