تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی و قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین ثناء اللّٰہ مستی خیل نے پاور ڈویژن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کرائیں اور ذمے داری فکس کریں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاور ڈویژن کے مالی سال 23-2022ء کے آڈٹ پیراز پر غور ہوا۔
اے جی پی آر حکام نے بتایا کہ پاور ڈویژن 2 ارب 75 کروڑ روپے کی گرانٹ استعمال نہیں کر سکا۔
ثناء اللّٰہ مستی خیل نے کہا کہ افسوس ناک ہے کہ پاور ڈویژن گرانٹ کو مکمل استعمال نہ کر سکا، یہ قومی اہمیت کا منصوبہ ہے، متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو لکھیں اور زمین حاصل کریں۔
شاہدہ اختر نے کہا کہ دھابیجی خصوصی اقتصادی زون کے لیے 90 کروڑ روپے استعمال نہیں کیے جا سکے۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ حیسکو رائٹ آف وے مسائل کی وجہ سے رقم استعمال نہ کر سکی، حیسکو کے 10 ٹاورز کے رائٹ آف وے معاملات حل نہیں ہوئے۔
سید نوید قمر نے سوال پوچھا کہ کیا حیسکو نے بغیر منظوری ہی امداد مانگ لی؟
حسنین طارق نے کہا کہ قومی مفادات کے لیے حکومت اختیارات استعمال کرتے ہوئے زمین حاصل کر سکتی ہے۔
جنید اکبر کا کہنا ہے کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ فنڈز کی کمی ہے پھر اربوں روپے عدم استعمال پر واپس کیےجاتے ہیں۔
خواجہ شیراز نے کہا کہ یہ کس طرح کی گورننس ہے کہ رقم موجود ہے مگر منصوبے پر عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا؟
ثناء اللّٰہ مستی خیل نے کہا کہ ایسا کرنے سے صرف منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ مالی امداد پر چلنے والے سب سے سست رفتار منصوبے پاور ڈویژن کے ہیں، منصوبوں میں بہتری کے بجائے مشکلات ہی بڑھی ہیں۔
سیکریٹری پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن میں ترقیاتی منصوبوں کو زیادہ ترجیح نہیں دی جاتی تھی، اب اس کو تبدیل کیا گیا ہے، اب ہم نے اپنے سسٹم کو بہتر کیا ہے۔