• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سدھایا ہوا بندر پنجرے میں بند ہے۔ سائنسدان سلاخوں کے اندر ایک پتھر رکھتا ہے۔ بندر جانتا ہے کہ پتھر اٹھا کر واپس دے تو انعام ملے گا۔ جب وہ دے دے تو آپ اسے کھیرے کا ایک ٹکڑا پیش کریں۔ بندر بخوشی قبول کر لے گا۔ جتنی دفعہ بھی یہ عمل دہرایا جائے، ہر دفعہ قبول کرے گا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہو گا، جب ساتھ والے پنجرے کے بندر کو وہی کام کرنے پر آپ کیلا پیش کر دیں۔ اب پہلے بندر کو ایک بار پھر پتھر پکڑائیں۔ اب جب وہ پتھر واپس کرے گا تو کیلے کی آرزو کر رہا ہو گا۔ کھیرا پکڑائیں گے تو اٹھا کر آپ کے منہ پر دے مارے گا۔ یہ ہے بنیادی جبلت۔ انسانوں میں بھی ہو بہو یہی ہوتا ہے۔

سڑک پہ دو بھکاری کھڑے ہیں۔ ایک کو آپ پچاس روپے کا نوٹ دیں۔ وہ دعا دے گا۔ دوسرے بھکاری کو مگر پہلے کی آنکھوں کے سامنے ہزار روپے کا نوٹ دے دیں۔ پہلے فقیر کو اس طرح کرنٹ لگے گا، جیسے آپ اس کا حق کھا گئے ہیں۔ وہ آپ کا پیچھا کرے گا، منتیں کرے گا۔ اگر آپ اسے ہزار روپے نہیں دیں گے تو وہ آپ کو بدعائیں بھی دے گا۔ کیایہ طرزِ عمل ہوبہو بندر والا نہیں؟

اسی طرح ایک کام کرنے پر انعام کی جگہ سزا دے کر دیکھ لیں۔ بندر نے پتھر واپس کیا، آپ نے اسے جھانپڑ مارا۔ دوسرے پنجرے میں پتھر رکھیں، دوسرا بندر کبھی پتھر کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ یہ بنیادی عقل بندر میں بھی موجود ہے کہ اس کام سے بچنا ہے، جس سے سزا ملتی ہے۔واحد انسان ہے، جس کے ساتھ جو مرضی ہو جائے، دوسرے انسان نما بندر سبق نہیں سیکھتے۔ ابھی حال ہی میں شیخ حسینہ کے ساتھ کیا ہوا۔ اس نے پوری طاقت سے ملک پر قبضہ کیا۔ واجدہ ضیاء کوجیل میں ڈالا۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے سارے زخم کھرچ کر ہرے کر دیئے۔

شیخ حسینہ کیلئے سب سے بڑا نشان ِعبرت تو خود اس کا باپ تھا۔کیا اس نے اپنے باپ کے قتل سے کوئی سبق سیکھا؟ جذبات کی شدت میں کیے گئے وعدے جب پورے نہیں ہوتے توحکمرانوں کے پورے پورے خاندان قتل کر دیے جاتے ہیں۔ کتنے بادشاہ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہیں، جو اسی طرح قتل کر دیے گئے۔

شروع میں بندروں کا ذکر کیا تھا۔ بندر دراصل پرائمیٹس کہلاتے ہیں۔ گریٹ ایپس یعنی چمپنزی وغیرہ پرائمیٹس سے ہی نکلے ہیں۔ بندر کو پرائمیٹ ہو کر اتنی سمجھ ہے کہ ایک بات پر دوسرے بندر کو ڈنڈا پڑا ہے تو میں وہ کام نہ کروں اور ڈنڈے سے بچوں۔ پرائمیٹس جن میملز یعنی کتے بلیوں سے نکلے ہیں، وہ بھی یہ بات سمجھتے ہیں۔ میملز کے اوپر پرائمیٹس، پرائمیٹس کے اوپر گریٹ ایپس۔ گریٹ ایپس کی سب سے اونچی چوٹی پر کھڑا انسان مگر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ڈنڈا کھا کے چھوڑتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ جذبات جب اقتدار اور دولت اکٹھی کرنے کی ہوس میں انسان کو دیوانہ کر دیں تو عقل بیچاری کیا کرے۔

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی درگت سے پاکستان میں کسی نے کوئی سبق سیکھا؟ بس ایک دیوانگی ہے کہ شیخ حسینہ نہ سنبھال سکی، ہم مگر سنبھال لیں گے۔ بھائی پندرہ سال شیخ حسینہ بھی سنبھال گئی تھی۔ آخری نتیجہ کیا نکلا۔

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

پرویز مشرف نے بھی سب کچھ سنبھالا ہوا تھا۔ افتخار چوہدری والا ایک واقعہ ہوا اور سب ختم۔ حالات کا دھاراخدا کے ہاتھ میں ایک لٹھ کی طرح ہوتاہے۔ خدا جب کوئی چال چلتاہے تو انسان کہاں اس کا سامنا کر سکتاہے۔ جس سے اپنا بلڈ پریشر نہیں سنبھالا جاتا، وہ خدائی منصوبے کا مقابلہ کرے گا؟

ٹرمپ آپ کے خیال میں کیا ہے؟ انسانی جسم میں ایک بندربلکہ میمل سے بھی بدتر، جو غزہ، کینیڈا، پوری دنیا ہتھیا لینا چاہتاہے۔ یوکرین کی ہم نے روس کے خلاف مدد کی، یوکرین اپنی معدنیات ہمیں دے۔ انسانی عقل کی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے شارٹ ٹرم میں سب کچھ ہتھیا لینے کی خواہش رکھنے والی عقل، جو ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک میں بدرجہ ء اتم کارفرما ہے۔ ایک ہوتی ہے دیر پا تناظر میں دیکھنے والی عقل، جو ابرہام لنکن کو بتا دیتی ہے کہ امریکی اشرافیہ جو مرضی کہے، انسانوں کو اب مزید غلام رکھنا ممکن نہیں۔ پوری دنیا سے غلامی مٹ رہی ہے۔ باقی تاریخ ہے۔

ایلون مسک ٹرمپ کے ہمراہ بریفنگ کے ہنگام فرزند سے کیوں کھیلتا ہے۔ بڑی بیٹی تواس کی رُلتی پھر رہی ہے۔ اولاد سے تو اسے کوئی خاص محبت نہیں۔اسے صرف اپنے آپ سے محبت ہے۔ دراصل اپنی بے تحاشا طاقت کے مظاہرے سے لذت کشید کرنے کی خواہش۔ٹرمپ اور مسک، دونوں کو انسانوں کی تذلیل میں لطف محسوس ہوتا ہے۔ پھر اس پر دونوں فخر بھی کرتے ہیں۔ امریکی افسروں کیلئے تازہ حکم یہ ہے کہ جس نے اپنی ہر لمحے کی کارکردگی لکھ کر پیش نہیں کی، وہ ملازمت سے فارغ ہے؛ حالانکہ سرزنش کافی ہوتی۔

ٹرمپ کی اقدار کوئی نہیں۔ وہ دولت کا پجاری ہے۔ اسی لیے مسک کو سر پہ اٹھایا ہوا ہے۔ یہ دونوں آج کرّہ ء ارض کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ان سے پہلے بہت سے بادشاہ کرگزرنے کی کوشش میں تاریخ کے عبرت کدے کا حصہ بن چکے۔ ٹرمپ اور مسک کے خلاف امریکہ میں تحریک کھڑی ہو جائے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی۔ آخری تجزیے میں وہ دونوں اس بندر سے بھی گئے گزرے ہیں، جو ڈنڈے سے خود کو بچا نا جانتا ہے۔ دوراندیشی والی عقل اگر ہے تو چینیوں میں۔

تازہ ترین