خارجہ امور کبھی میرا خاص موضوع نہیں رہا لیکن ملکی سیاست کو عالمی تبدیلیوں سے الگ کر کےکوئی رائے دینا بھی ممکن نہیں۔ جب سے چاچو ٹرمپ دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں تو میری اس حوالے سے دلچسپی بڑھ گئی ہے اور میں ملکی و بین الاقوامی سیاسی رویوں، تیزی سے رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے حصار میں اپنے سیاست دانوں کی غیر سنجیدگی اور فارم47 والوں کی بے بس حکومت کے باہمی لڑائی جھگڑوں کے درمیان ان سوچوں میں گم، خطے میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات، خصوصاً افغانستان سے آنے والی شدید ترین دہشت گردی کی لہر اور پاکستان میں بیرونی بشمول بھارتی شرپسند عناصر کی مداخلت اور سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر کمزور تر معاشی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ قبل اس کے کہ دیر ہو جائے اور ٹرمپ ہم سے ادھار اور امداد کے نام پر دیئے گئے ڈالروں کا حساب کتاب مانگتے ہوئے کچھ ایسا مطالبہ کر دے جو ہم پورا نہ کر سکیں تو کیا ہو گا؟ چاچو! جنہیں اکثر پاکستانی چھچھورا یا اداکار سمجھتے ہیں اور انکے مسخرے پن پر ہنسی مذاق کرتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ چاچو بہت بڑے کاروباری سیاسی کھلاڑی ہیں۔ وہ کاروبار کے نام پر اپنے مخالفین اور اتحادیوں کے پیچھے ہاتھ جھاڑ کر پڑے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکومت کے دوران انہوں نے یوکرائن سے جنگ بندی معاہدے کے عوض پانچ سو ارب ڈالر کی فوری واپسی کی دھمکی دے کر یوکرائن کی نایاب و قیمتی معدنیات کے ذخائر پر امریکی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ وہ یورپی ممالک اور چین، کینیڈا پر ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کر رہے ہیں۔ چاچو دنیا کے تمام بڑے سرمایہ داروں کو 50 لاکھ ڈالر کے عوض امریکی شہریت دے کر عالمی سرمائے کی امریکہ منتقلی کا منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں دیکھتے ہیں اس گولڈن پیشکش سے کتنے پاکستانی خاندان مستفید ہوتے ہیں۔ چاچو کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اور ڈنمارک کے خود مختار علاقے گرین لینڈ کو، جو دنیا کا سب سے بڑا سٹرٹیجک جزیرہ اور چینی بحری جہازوں کی اہم ترین گزر گاہ بھی ہے، بھی امریکہ میں ضم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی ڈنمارک کے وزیر اعظم سے تلخ کلامی بھی ہو چکی ہے۔ چاچو اس جزیرے کو چین کے خلاف فوجی و اقتصادی مفادات میں ایک مہلک ہتھیار کے طور پر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ انہیں کاروباری لحاظ سے یہ بھی معلوم ہے کہ گرین لینڈ نایاب ترین معدنیات سے کس قدر مالا مال ہے جو امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہیں تو وہ پیچھے کیوں ہٹیں؟ اگرچہ گرین لینڈ کے اصل مالک انہیں جواب دے چکے ہیں کہ یہ جزیرہ برائے فروخت نہیں اور انہیں کسی ملک (امریکہ) سے الحاق میں کوئی دلچسپی نہیں، چاچو پھر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ جب سے چاچو دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں دنیا میں ہرطرف تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ سب اچھا کی رپورٹ دیئے جا رہے ہیں۔ مودی ٹرمپ ملاقات، افغان طالبان انتظامیہ بارے چاچو کے اظہار خیال پر توجہ دینے پر کوئی تیار نہیں۔ چاچو جی نے ہمیں بذریعہ مودی کچھ پیغامات بھی بھجوائے ہیں۔ وہ افغان طالبان سے امریکی اسلحہ واپس لینے، امدادی ڈالروں پر دو دو ہاتھ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف مودی سرکار کو جدید ترین جنگی طیارے ایف 35 ، اسلحہ گولہ بارود، جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحائف دیئے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں موجود امریکی حامی افغانیوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں افغانیوں، ہندوستانیوں اور غیر ملکی شرپسند عناصر کی دہشت گرد کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہمارے خلاف جو جال بچھائے جا رہے ہیں حقائق یہ لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ چاچو ایک دن ہمیں بھی انگوٹھا دکھاتے ہوئے کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ آج نقد کل ادھار اور ہمارے پلے ادھار چکانے کو اپنا پلہ جھاڑ کر دکھانے کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ چاچو کی پالیسیوں کو ہم جس نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے جو اشارے پاکستان کی طرف کئے جارہے ہیں، ابتدائی پیغام تو امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کے سربراہ جینڑی بیچ دورہ پاکستان کے دوران دے گئے ہیں کہ وہ یہاں مذاکرات نہیں کاروبار کیلئے تشریف لائے تھے۔ ہم پاکستان میں قیمتی معدنیات، توانائی، رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کو امریکی اتحادی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارت نے جو کچھ کیا اس ضمن میں اتحادی ہونے کے دعویدار امریکہ کے بحری بیڑے کے آنے کی یادیں خوشگوار نہیں۔ تاریخ بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ امریکہ خود غرض اور مطلب پرست اتحادی ہے۔ واشنگٹن اسلام آباد کی دوستی اتار چڑھاؤ کے باوجود ایسی رفاقت ہے جو دوستوں کے درمیان اچھے بُرے موڈ کے باوجود قائم و برقرار رہتی ہے۔ احتیاط ملحوظ خاطر رکھیں۔ آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں کانوں کو جو سنائی دیتا ہے دماغ کی بتیاں گل کر دیتا ہے۔ ہم خوابوں کی کس جنت میں رہ رہے ہیں۔ چاچے مامے کی ہمارے خلاف ساجھے داری وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے نتائج بارے ابھی کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نواز شیخ حسینہ واجد کے خلاف پاکستان نواز انقلاب نے خطے میں جو بھونچال پیدا کیا ہے مودی سرکار کو یہ انقلابی تبدیلی کسی صورت ہضم نہیں ہو رہی۔ ایسے میں بھارت کے ساتھ مذاکرات یا بحالی تعلقات کی امید رکھنے کی ہر کوشش ناکام رہے گی۔ چھیڑ چھاڑ شروع ہو چکی، خطوط اڈیالہ جیل سے بھی لکھے جارہے ہیں اور امریکی سینیٹرز بھی ٹرمپ کو مداخلت پر اُکسا رہے ہیں پاکستان کی جمہوریت کو عالمی سطح پر بدترین قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں کیا ہو سکتا ہے۔ اس پر کیا کہوں، کیا لکھوں، بس اتنا سمجھ لیجئے کہ شہباز حکومت کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود مائنس عمران پلان بھی موجود ہے۔