بلوچستان میں بھی مُلک کے دیگر حصّوں کی طرح ماہِ صیام کا شدّت سے انتظار رہتا ہے۔ عوام اپنے مختلف پروگرامز، بالخصوص شادی بیاہ وغیرہ، رمضان المبارک کی تاریخوں کی بنیاد ہی پر طے کرتے ہیں۔ کسی خاص مہمان کی آمد پر خوشی کی مانند، ماہِ صیام کے آنے پر بھی ہر طرف خوشی اور روحانی سرشاری کا سماں ہوتا ہے۔
بڑوں کے ساتھ بچّوں کی خوشیاں بھی دیدنی ہوتی ہیں۔ اُنھیں اِس ماہ کے اختتام پر منائی جانے والی عید کے موقعے پر نئے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ عیدی کا بھی بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور عموماً ماہِ صیام کے دَوران اُن کا موضوعِ گفتگو بھی یہی ہوتا ہے، جس کے دَوران وہ گھر کے بڑوں سے وصول کی جانے والی عیدی کے جوڑ توڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ماہِ صیام کا چاند نظر آتے ہی مساجد پہلے سے زیادہ آباد ہوجاتی ہیں۔ صوبے کے شہر ہوں یا دیہات، مساجد اور دیگر مقامات پر نمازِ تراویح کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہروں میں گلیوں، محلّوں میں اسٹریٹ لائٹس کا بھی خاص اہتمام ہوتا ہے، جس کی روشنی میں نوجوان کرکٹ اور فُٹ بال وغیرہ کے ٹورنامنٹس کا انعقاد کرتے ہیں، جو عموماً سحری تک جاری رہتے ہیں، اِس موقعے پر تماشائیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، جب کہ کئی ہوٹلز میں شطرنج، تاش اور کیرم بورڈ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔
ایک زمانے میں روزہ داروں کو سحری میں جگانے کے لیے گلی گلی ڈھول بجائے جاتے تھے، مگر شہروں میں یہ روایت اب تقریباً ختم ہوچُکی ہے کہ موبائل فون کے الارم نے اِس کی جگہ لے لی ہے، البتہ دیہات میں یہ روایت اب بھی کسی حد تک موجود ہے۔ سحری میں مساجد سے اعلانات کیے جاتے ہیں، جس کے دَوران جہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد وقت کا بتایا جاتا ہے، وہیں نعتیں وغیرہ بھی پڑھی جاتی ہیں۔
اگر راتیں زیادہ سرد نہ ہوں، تو لوگوں کا سحری تک رت جگا جاری رہتا ہے۔ کوئٹہ شہر میں بعض ایسے ہوٹلز بھی بنائے گئے ہیں، جہاں مطالعے کے لیے چھوٹی چھوٹی لائبریریز قائم ہیں، تو ماہِ صیام کی راتوں میں لوگ اُن سے بھی استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہری علاقوں میں تراویح سے سحری تک خُوب رونق اور خاصی چہل پہل رہتی ہے۔
اگر افطاری کی بات کریں، تو بلوچستان کے شہری علاقوں میں تو باقی مُلک سے مَلتی جُلتی ہی ڈشز تیار کی جاتی ہیں، جیسے پکوڑے، سموسے، چنا چاٹ، دہی بڑے، چکن رول، فروٹ چاٹ وغیرہ۔ البتہ دیہات میں کچھ روایتی ڈشز کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ افطار سے قبل بازاروں میں کندھے سے کندھا چِھلتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں پَھلوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے مارکیٹس کا رُخ کرتے ہیں۔ اِس موقعے پر بازاروں میں افطار سے متعلقہ اشیاء کے خصوصی اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں اور یوں اِس ماہ میں لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
گھروں میں خواتین دوپہر ہی سے افطار دستر خوان کی تیاریاں شروع کردیتی ہیں۔ کہیں پکوڑے تلے جا رہے ہیں، تو کوئی طرح طرح کی مزے دار چٹنیاں بنانے میں مصروف ہے، تو کسی طرف شربت وغیرہ تیار کیے جا رہے ہیں۔ بچّے بھی بڑے شوق سے بھاگ بھاگ کر ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں۔ اِس ماہ کی رونقیں الگ ہی سے زندگی میں رنگا رنگی کا احساس لیے جلوہ افروز ہوتی ہیں۔
گاؤں میں روزہ دار دن بَھر اپنے کام کاج میں مصروف رہنے کے بعد نمازِ عصر کے بعد میدانی علاقوں میں فُٹ بال، کُشتی، بھاری پتھر دُور پھینکنے اور اِسی طرح کے دیگر کھیل کھیلتے ہیں یا پھر دوسروں کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ ایسے خوش نصیب لوگ ہیں، جو شہری ماحول سے دُور، ٹریفک کے شور سے محفوظ ہونے کے ساتھ دیسی اور خالص اشیائے خور و نوش کی نعمت سے بھی مالا مال ہیں۔
البتہ اب موبائل فونز کا استعمال عام ہونے سے دیہات میں بھی معمولاتِ زندگی بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس کے اثرات ماہِ صیام میں بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ صوبے کی مختلف شاہ راہوں پر مخیّر افراد کی جانب سے مسافروں کے لیے افطار کے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، جب کہ کوئٹہ شہر میں ایدھی، سیلانی، چھیپا سمیت مختلف تنظیمیں اور مخیّر افراد افطار دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں، جن سے لوگوں کی بڑی تعداد استفادہ کرتی ہے۔یہ الگ بات کہ اِس طرح کے دستر خوانوں پر روزہ داروں کے ساتھ، منشیات کے عادی افراد بھی بیٹھے نظر آتے ہیں۔
نیز، بہت سے افراد کسی لمبے چوڑے اہتمام یا نمود و نمائش کی بجائے، اپنی حیثیت کے مطابق سڑکوں یا محلّوں میں میزوں پر کھجور اور شربت وغیرہ رکھ کر بھی روزہ داروں کے منتظر رہتے ہیں تاکہ روزہ افطار کروانے کا ثواب حاصل کیا جاسکے۔
صوبے کے مختلف علاقوں میں مساجد میں چاول، سالن، روٹی اور پھل وغیرہ بھجوانے کی خُوب صُورت روایت اب بھی برقرار ہے تاکہ وہاں موجود مسافر یا دیگر افراد روزہ افطار کرسکیں۔ مساجد میں نمازِ تراویح کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، جب کہ چھوٹی مساجد میں تو عموماً جگہ کم پڑ جاتی ہے، جس پر باہر سڑکوں پر صفیں بچھائی جاتی ہیں۔نمازیوں کی کثرت کے سبب نمازِ فجر میں نمازِ جمعہ کا سا سماں ہوتا ہے۔
عام طور پر ماہِ صیام میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری رہتی ہے اور بسا اوقات نمازوں کے اوقات میں بھی بجلی غائب رہتی ہے، تو ایسی صُورت میں شمسی توانائی، یو پی ایس یا جنریٹر وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بہت سے افراد اپنے گھروں میں بھی نمازِ تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں عام طور پر خاندان کے افراد یا دوست احباب ہی شریک ہوتے ہیں۔
مساجد میں نمازوں سے پہلے اور جماعت کے بعد بھی لوگ تلاوتِ قرآنِ پاک یا نوافل وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں اور ہر شخص ماہِ صیام میں زیادہ سے زیادہ عبادات کی کوشش کرتا ہے۔ کئی مقامات پر ختمِ قرآن کے سہہ روزہ، سات روزہ یا دس روزہ اجتماعات ہوتے ہیں، جن میں عام طور پر تاجروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جو نصف رمضان کے بعد اپنا زیادہ وقت مارکیٹس میں گزارتے ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے حُسنِ قرأت اور نعت خوانی کے مقابلے کروائے جاتے ہیں، جب کہ اسکولز میں میلاد شریف کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
اِس ماہِ مقدّس میں عوامی سطح پر کارِ خیر کا جذبہ ہر سُو نظر آتا ہے۔ جو افراد عام دنوں میں مصروفیاتِ زندگی کے سبب اپنے محلّے میں باجماعت نماز ادا نہیں کرپاتے، وہ ماہِ صیام میں کم ازکم تین نمازیں فجر، مغرب اور عشاء اپنے محلّے کی مسجد میں باجماعت ادا کرتے ہیں، جہاں محلّے داروں سے ملاقات کا موقع بھی ملتا ہے اور یوں سماجی رابطوں میں اضافہ ہوتا ہے۔یہاں اِس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی باقی مُلک کی طرح بلوچستان میں بھی ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور متحرّک ہوجاتے ہیں۔
وہ مصنوعی منہگائی کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے روزہ داروں کو لُوٹتے ہیں، حالاں کہ یہ مہینہ تو اپنے مسلمان بھائیوں سے خیر خواہی کا درس دیتا ہے۔اشیائے خوردنی کے نرخ آسمان تک پہنچا دئیے جاتے ہیں، جس کے باعث متوسّط اور غریب طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی صُورتِ حال عید کی خریداری کے موقعے پر بھی دیکھنے میں آتی ہے، جب خریداروں سے کئی کئی گُنا زاید قیمت وصول کی جاتی ہے۔
صُورتِ حال کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کا سخت فقدان رہتا ہے اور تمام تر دعوے یا اقدامات محض زبانی کلامی احکامات یا فوٹو سیشنز تک ہی محدود رہتے ہیں۔ جہاں نسوار یا تمباکو نوشی کے عادی افراد کو روزے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوکر بات بے بات آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، وہیں بہت سے افراد اِس ماہ کی برکتوں کے طفیل تمباکو نوشی اور اِسی طرح کی دیگر منفی عادات سے چھٹکارا بھی پالیتے ہیں۔
نیز، اکثر لوگ اپنے بڑھتے وزن پر بھی قابو پا لیتے ہیں۔ اِس ضمن میں ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ’’اِس ماہ کے دَوران لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروانے والوں کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے، اکثر اسپتال بھی ویران ہوجاتے ہیں۔سو، روزے کے سبب اپنی بیماریوں میں افاقہ محسوس کرنے والے افراد اگر سال کے باقی دنوں میں بھی نفلی روزے رکھنے کا اہتمام کریں، تو متعدّد امراض سے چھٹکارا پانا ممکن ہے۔
تاہم ماہِ رمضان کے بعد بدپرہیزیاں کرنے والوں پر ترس آتا ہے۔‘‘ماہِ رمضان میں گیس و بجلی کی بلاجواز لوڈشیڈنگ اور آسمان کو چُھوتی منہگائی روزہ داروں کے معمولات کو بُری طرح متاثر کرتی ہیں۔ کبھی حقیقی معنوں میں سستے بازار لگا کرتے تھے، اب بھی اِس طرح کے بازار لگتے ہیں اور اُن کی سرکاری سطح پر خاصی تشہیر بھی کی جاتی ہے، مگر وہاں سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔
ہر گزرتے سال کے ساتھ گراں فروشوں کی حوصلہ افزائی ہی ہو رہی ہے، جس کے باعث ماہِ صیام منہگے سے منہگا تر ہوتا جا رہا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کئی غیر اسلامی ممالک میں ماہِ مبارک کے دَوران مسلمانوں کی دِل جوئی اور اُن کے عقیدے کے احترام میں اشیائے صَرف کے نرخوں میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے، جو حقیقتاً ریلیف ہوتا ہے، جب کہ اِس کے برعکس، ہمارے ہاں اِسے’’مال کمانے‘‘ کا مہینہ تصوّر کرلیا گیا ہے، حالاں کہ اسلام میں تو عام دنوں میں بھی ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور مصنوعی منہگائی کی سخت ممانعت ہے، پھر ماہِ صیام جیسے بابرکت ماہ میں جہاں نیکی و ثواب کے کاموں کا اجر کئی گُنا بڑھ جاتا ہے، وہیں برائیوں کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہماری یہ بے حسی یا ہوسِ زر مخالفین کو اسلامی تعلیمات پر سوالات اُٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی بلوچستان کے شہری علاقوں پر، گویا عادی بھکاریوں کی یلغار ہوجاتی ہے۔ یہ بھکاری زیادہ تر گرم علاقوں سے کوئٹہ اور دیگر شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ان میں سے بہت سے بھکاری مختلف جرائم میں بھی ملوّث ہوتے ہیں، جس کے سبب ماہِ صیام کے دَوران اِن کے زیرِ اثر علاقوں میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، جیسے چوری چکاری یا جیب تراشی کی وارداتوں وغیرہ میں۔
حکومت نے عوام کے دیرینہ مطالبے پر کوئٹہ کی ایک اہم سڑک، سریاب روڈ کو دو رویہ بنایا ہے، جس سے اس کی خُوب صُورتی اور کشادگی میں خاصا اضافہ ہوگیا، مگر بد قسمتی سے اب بھی کئی مسائل درپیش ہیں، جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے، تو معتبرین، قبائلی عمائدین اور علماء کرام کو مِل بیٹھ کر اِن مسائل کا حل نکالنا چاہیے کہ شدید ٹریفک جام بھی ماہِ صیام کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔
ہاں، بلوچستان کے شہری علاقے ہوں یا دیہات، ماہِ صیام کے آخری عشرے کا اعتکاف یہاں کی ایک بہترین روایت ہے اور ہر سال ہزاروں افراد یہ سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں ایک حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ معتکفین میں نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جب کہ گھروں میں خواتین بھی ماہِ صیام کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتی ہیں۔