• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عنوان کی اصطلاح اکبر الٰہ آبادی سے ماخوذ ہے۔ اکبر الٰہ آبادی امت مسلمہ کے زوال پر نوحہ خوانی کرتے رہے۔ علامہ اقبال اکبر الٰہ آبادی سے بہت متاثر تھے دونوں کے درمیان 133سے زیادہ خطوط کا تبادلہ ریکارڈ پر ہے۔ 133خطوط کو حال ہی میں محقق زاہد منیر عامر ایک صدی کے بعد ’’اکبر بنام اقبال‘‘ میں سامنے لائے ہیں۔ علامہ اقبال کا یہ شعر اکبر الٰہ آبادی کے مرتبے کو واضح کرتا ہے؎

رنگ یہ مخصوص ہے اقبال، اکبر کے لئے

ہر سخن ور کی یہاں طبعِ رواں جاتی ہے رک

علامہ اقبال نے لکھا ہے ’’اسلامی ادیبوں میں تو شائد آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیاء میں کسی قوم کے ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا ‘‘اکبر الٰہ آبادی کی اصطلاح کی ضرورت اس لئے پڑ گئی کہ صحافت پر مشکل آن پڑی ہے۔ عمران ریاض سے بات شروع ہوئی، کاشف عباسی تک پہنچی، چلتے چلتے حبیب اکرم کو کہنی مار گئی اور اب یہ معاملہ طلعت حسین تک پہنچ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ گرفتارِ صحافت کو تختہ دار پر چڑھایا جا رہا ہے۔

میری عاجزانہ سوچ ہے کہ آزادی اظہارِ رائے دبانے سے ریاست کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب آزاد میڈیا شروع ہوا تو لوگ ٹی وی کی ہر بات پر یقین کرتے تھے۔ لوگوں نے آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی اور وائس آف امریکہ کو چھوڑ چھاڑ دیا تھا اور ہم اس عروج کو پہنچ گئے تھے کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ، پاکستان کے بارے میں خبریں ہمارے ٹی وی چینلز کے حوالے سے نشر کرتے تھے۔ جب سے میڈیا پر ظاہری اور خفیہ پابندیاں لگی ہیں لوگوں نے سوشل میڈیا کی طرف توجہ مبذول کر لی ہے چونکہ تاثر یہ ہے کہ ٹی وی یا معروف میڈیا گروپس پابندیوں کا شکار ہیں چنانچہ پراپیگنڈا پھیل رہا ہے، فیک نیوز کا عام رواج ہے۔ پابندیاں ہمیشہ خفیہ اور منفی راستے جنم دیتی ہیں غالب ؔنے اس موضوع کو شعر میں پروتے ہوئے کیا خوب کہا تھا؎

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ریاست کا مقصد تو یہ ہے کہ پابندیاں لگانے سے وہ مضبوط ہو گی فیک نیوز پراپیگنڈہ اور مخالفانہ گفتگو رک جائے گی مگر انسانی نفسیات اس سوچ کا ابطال کرتی ہے، پابندیاں لگانے سے ریاست کمزور ہوتی ہے ریاست اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، صوبوں کے درمیان رشتے کمزور ہوتے ہیں، فوج اور عوام میں واسطے ٹوٹنے لگتے ہیں، حکومتی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔

مجھے قرآنی آیت پر پکا ایمان ہے کہ سچ آتا ہے تو جھوٹ بھاگ جاتا ہے۔ کیا ریاست کا سچ اتنا ہی کمزور ہے کہ قرآنی حکم کے مطابق جھوٹ کو نہیں بھگا سکتا۔ ریاست اپنے بیانیے کو اس قدر سچا، شفاف اور مضبوط کیوں نہیں بناتی کہ جھوٹے بیانیے اپنی موت خود ہی مر جائیں۔ ریاست اور سرکار کے ہر کارے پابندیاں لگانے میں جتنے سرگرم ہیں اگر ان میں سے آدھے سچ کا بیانیہ زور دار طریقے سے پیش کریں تو فیک نیوز اور پراپیگنڈا خود ہی بے نقاب ہو جائے گا مگر افسوس یہ ہے کہ ساری پابندیاں روایتی میڈیا اور بڑے ناموں پر لگ رہی ہیں حالانکہ وہ حکومت کے مخالف یا کسی ریاستی پالیسی کے نقاد تو ہو سکتے ہیں مگر نہ وہ فوج کے خلاف ہیں اور نہ ہی ریاست کے خلاف۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ؎

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

فیک نیوز، پراپیگنڈا کرنے والوں میں سے اگر کوئی نامعلوم پکڑا بھی گیا ہے تو اسکی معلومات میسر نہیں، آجاکر بیچارے مسلمان ہی شکنجے میں آ رہے ہیں۔

کالم بلبل اور بینڈ ماسٹر سے شروع ہوا تھا اقبال اور اکبر الٰہ آبادی کے شارح زاہد منیر عامر کے بقول اکبر الٰہ آبادی کی بلبل قدیم ثقافت اور رواج کی علامت تھی، بلبل کی آواز سریلی لطیف اور دل کو لبھانے والی ہوتی ہے جبکہ بینڈ کی آواز بلند کرخت اور جدید زمانے کی سختی کو ظاہر کرتی ہے۔ اقبال نے بھی مادر وطن سے محبت کرنے والوں کو بلبلیں قرار دیا ہے، صوفی شاعر میاں محمد بخش کی روایت کا پنجابی میں یہ شعر مشہور ہے ؎

قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغاں والی

قدر پھلاں دی گرج کیہ جانے مردے کھاون والی

اس شعر کا معنی واضح ہے کہ صاف دماغ والی بلبل ہی پھولوں کی قدر جان سکتی ہے چیل جو مردے کھاتی ہے اسے پھولوں کی کیا قدر ہو سکتی ہے۔ اگر آج کے میڈیا پر اس کا اطلاق کیا جائے تو سچ بولنے والے بلبلیں ہیں جبکہ فیک نیوز اور پراپیگنڈا کرنے والے چیلیں ہیں۔ پھول دراصل ملک ہے جو ریاست کے ہر باشندے کا محبوب ہوتا ہے ہر بلبل کا اپنے محبوب پھول کو سنوارنے کا ایک الگ زاویہ ہے بعض اوقات باشندے پھول کے بارے میں تلخ بھی ہو جاتے ہیں اختلاف بھی کر جاتے ہیں مگر ان سب متضاد زاویوں میں ان کے دل کے اندر پھول سے محبت ہی موجزن ہوتی ہے، پھول کی تعریف کرنے والے یا اس کی اصلاح کی خواہش کرنے والے دونوں ہی بلبلیں ہیں چیلیں اور گرجیں جان بوجھ کر جھوٹ پھیلانے والے، ریاست کو کمزور کرنے والے اور اسے گرانے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ خدارا بلبلوں کو تو چہچہانے سے نہ روکو، چیلیں اور گرجیں تو آپ کے قابو اور بس سے باہر ہیں، اب عتاب بلبلوں پر گر رہا ہے۔ بلبلیں ہی تو پھول ریاست اور چاند عوام کی ہدی خواں ہوتی ہیں، بلبلیں بھی گرجوں کی طرح اڑ گئیں تو چمن، پھول اور تتلیوں کا کیا بنے گا؟

اس عاجز کو یقین ہے کہ نحیف آواز کو کوئی نہیں سنے گا مگر لوگوں کا منہ بند کرنے سے کانوں میں آنے والا شور بند نہیں ہوتا۔ شور کا جواب صرف سچ اور سچ میں ہے۔ پابندیاں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں، سختیاں کبھی آزادی سلب نہیں کر سکیں، اب بھی نہیں کر سکیں گی۔ میڈیا پر پابندیاں لگانے سے وقتی طور پر مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر دائمی طور پر اس کو معمول پر لانے کیلئے آزادی دینا پڑے گی۔ روایتی ٹی وی اور اخباری میڈیا پر بے جا پابندیاں ان کے سچ کو بھی بے اثر کر رہی ہیں اور سوشل میڈیا کی فیک نیوز کے بارے میں ریاستی بے بسی ان کو اور طاقتور کر رہی ہے، اگر روایتی میڈیا کو مکمل سچ بولنے کا حق مل جائے تو گرجیں اور چیلیں، بلبلوں کی سریلی آواز کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ کوئی مانے گا تو نہیں مگر پنجابی کے میاں محمد بخش کے شعر کے مصداق مجھے یقین ہے کہ چڑیاں چاہے جس قدر ہوں جس قدر مرضی کا جھوٹ کا راج آ جائے بلبلوں کی آواز آئے گی تو جتنی مرضی چڑیاں چہچہائیں باہر کے ملکوں سے چیخ چنگھاڑ کریں وہ کچھ نہیں کر پائیں گی۔

بلبل وانگ نہ چڑیاں بولن، نہ کناں رس گھولن

رب دا کرم ہے بلبلاں اُتے اوہو ای سو نہڑاں بولن

تازہ ترین