• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب بینکوں میں کھاتوں کے بڑے بڑے رجسٹر کمپیوٹر کی چھوٹی سی چِپ میں گم ہو گئے۔ انٹرنیٹ بینکنگ نےلین دین کے معاملات اپنی گرفت میں لے لیے، پھر اچانک اس ڈیجیٹلائزیشن نےایک نئی کروٹ لی۔ عالمی مالیات کے وسیع اور ہمیشہ بدلتے ہوئے کینوس پر، کرپٹو کرنسی ایک نئی پینٹنگ کے طور پر ابھری ۔یہ ڈیجیٹل آگ کا پرندہ (ققنس) روایتی بینکاری نظام کی راکھ سے پھڑ پھڑا کر نکلا۔ اس کی اڑان اتنی انقلابی اور اتنی غیر متوقع تھی کہ حیرت کے اظہار کا موقع ہی نہیں ملا۔بس ایک لمحے میں ایک نئی کرنسی بین الاقوامی معیشت کا حصہ بن گئی۔ ایک ایسی کرنسی دنیا میں درآئی جس کا مرکزی بینک کسی ڈاٹ کام پربھی موجود نہیں۔ سب سے پہلے چین اس کرنسی سے متاثر ہوا اور اس نے ڈیجیٹل یوان لانچ کیا۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس انتظامی حکم نامے پر دستخط کر دئیے ہیں جس کے تحت سترہ بلین ڈالر کا کرپٹو کرنسی ریزرو قائم کیا گیا ہے۔ بھارت نے کرپٹو کرنسی کے استعمال کو محفوظ بنانے اور سرمایہ کاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے مراعات فراہم کی ہیں، جس سے ایک متحرک اور جدید ڈیجیٹل معیشت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے بٹ کوائن کو قانونی حیثیت دے رکھی ہے۔ وسطی امریکہ کے کچھ ممالک نے تو اسے دوسری کرنسیوں کی طرح ایک کرنسی قرار دیا ہوا ہے۔ مالٹا، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور پرتگال میں کرپٹو کرنسی کیلئے سازگار قوانین موجود ہیں جب کہ فرانس، جرمنی، جاپان، کینیڈا اور برطانیہ جیسے کچھ ممالک میں اس کے استعمال کی اجازت ہے لیکن اس کے استعمال پر سخت قواعد و ضوابط اور ٹیکس لاگو ہیں۔

شروع شروع میں پاکستان اس کرنسی سےخوف زدہ ہوا اور یہاں کرپٹو کرنسی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ جس کا بنیادی مقصد مالی استحکام اور صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ حکومت اور مرکزی بینک نے منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی فنڈنگ اور فراڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے بینکوں کو کرپٹو کرنسی کے لین دین سے روک دیا تاکہ مالی نظام میں غیر متوقع اتار چڑھاؤ سے بچا جا سکے اور عوام کو ممکنہ دھوکہ دہی اور نقصان سے بھی محفوظ رکھا جا سکے مگر حکومت کو جلد احساس ہو گیا کہ ہم چھوٹے چھوٹے نقصانات سے ڈر کر ایک بڑے فائدے سے منہ موڑ رہے ہیں۔ سو کرپٹو کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان میں کرپٹو کونسل کے قیام کا مقصد ملک میں ڈیجیٹل اثاثوں اور کرپٹو کرنسیوں کیلئے ایک مضبوط اور شفاف ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا ہے۔ اس کونسل کا ہدف ہے کہ کرپٹو کرنسی کو ایک اسٹرٹیجک اثاثے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، جامع پالیسیوں کی تشکیل کی جائے، یقیناً اس اقدام سے مالیاتی نظام کی حفاظت، صارفین کے اعتماد میں اضافہ اور معیشت کی ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔میرے ذاتی خیال میں پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو بہت زیادہ فروغ ملنا چاہئے کیونکہ کرپٹو کرنسی کا روایتی سودی نظام سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ کرپٹو کرنسیاں، جیسے بٹ کوائن، غیر مرکزی نظام پر مبنی ہوتی ہیں، جہاں لین دین پر کسی مرکزی بینک یا حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ اس کی قیمت میں اتار چڑھاؤ تو آتا ہے مگریہ نہیں کہ آپ کو اس کرنسی میں انویسٹمنٹ کرنے کے بعد کوئی مخصوص طے شدہ منافع ملنے کا امکان ہو۔ اگرچہ اسلامی بینکاری بھی آج کل عام ہے مگر بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس میں بھی منافع کی حد ہے اور خسارے کی کوئی شکل نہیں۔

کرپٹو کرنسی کے کئی فوائد ہیں۔ مرکزی بینک یا حکومت کے کنٹرول سے باہر ہونےکے سبب مالیاتی نظام میں شفافیت اور خود مختاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کرپٹو کرنسیوں میں کرپٹوگرافی کا استعمال ہوتا ہے، جو لین دین کو محفوظ بناتا ہے اور دھوکہ دہی کے امکانات کو کم ترین سطح پر لے آتا ہے۔ روایتی بینکنگ کےنظام کے مقابلے میں، کرپٹو کرنسیوں کے ذریعے بین الاقوامی رقم کی منتقلی تیز تر اور کم خرچ پرہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کنکشن رکھنے والے کسی بھی فرد کیلئے کرپٹو کرنسیوں تک رسائی ممکن ہے، جو مالیاتی شمولیت کو فروغ دیتی ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کی بدولت، تمام لین دین کا عوامی ریکارڈ موجود ہوتا ہے، جس سے شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل دنیا میں، ہر لین دین ایک کہانی بیان کرتا ہے۔عزائم، خطرات، اور آزادی کی مستقل انسانی جدوجہد کی کہانی۔ کرپٹو کرنسی کا عالمی سفر ابھی جاری ہے، اس کی زبان سرحدوں اور نسلوں سے ماورا ہے۔ نیویارک کے مصروف بازار ہوں یا ممبئی کے اختراعی راستے ،سوئٹزلینڈ کی بلڈنگیں ہوں یا لاہور کے ابھرتے ہوئے مراکز، ڈیجیٹل انقلاب کی دھڑکن ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ اس منظر نامےمیں، ہم اپنے مشترکہ مستقبل کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ایک ایسا مستقبل جہاں پیسہ صرف تبادلے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ وہ کینوس ہے جس پر ہم اپنی مشترکہ تقدیر کی تصویر کشی کررہے ہیں۔لیکن آئندہ اس نگارخانہ میں ہماری حیثیت اسی وقت ابھر کر سامنے آ سکتی ہے جب ہر نوجوان کے پاس اس کا اپنا کمپیوٹر ہو گا جب ہر گلی ہر محلے انٹر نیٹ کی مفت سہولت موجود ہو گی۔ جب بچوں کو پہلی جماعت سے کمپیوٹر پر تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔

تازہ ترین