• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

مسلمان خواتین ہمیشہ سے تعلیم، تحقیق اورتعمیر و ترقی کے میدان میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔تاریخ میں ایسی بہت سی عظیم خواتین کا ذکر ملتا ہے، جنھوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ان ہی نمایاں شخصیات میں سے ایک ’’فاطمہ الفہری‘‘ ہیں، جنہوں نے دنیا کی پہلی یونی ورسٹی، ’’جامعہ القرویین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 

ان کا یہ کارنامہ نہ صرف اسلامی تاریخ، بلکہ عالمی علمی وَرثے میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ علمی بصیرت کی حامل خاتون، فاطمہ الفہری نویں صدی عیسوی میں قیروان، تیونس میں پیدا ہوئیں۔ 

اُن کا خاندان بعد میںفاس، مراکش منتقل ہوگیا، جو اُس وقت اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک بڑا علمی مرکز تھا۔ ایک متموّل خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، فاطمہ نے اپنی دولت کو محض ذاتی آسائشوں کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ٖتعلیم کے فروغ کے لیے وقف کیا۔ اُس دَور میں، جب مسلم دنیا میں علمی ترقی اپنے عروج پر تھی اور بغداد، قرطبہ اور فاس جیسے شہروں میں تحقیق، فلسفے اور سائنس کی روشنی پھیل رہی تھی۔ 

فاطمہ الفہری نے اسی علمی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے 859ء میں مراکش میں ’’جامعہ القرویین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس منفرد تعلیمی ادارے کو دنیا کی پہلی یونی ورسٹی قرار دیاجاتا ہے، جو نہ صرف یونیسکو، بلکہ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق بھی قدیم ترین تسلسل کے ساتھ فعال تعلیمی ادارہ ہے۔

یہ ادارہ محض ایک مدرسہ نہیں تھا، بلکہ جدید طرز کی اعلیٰ تعلیم گاہ تھی، جہاں مختلف علوم کی تدریس ہوتی، جن میں اسلامی علوم (قرآن، حدیث، فقہ)، عربی زبان وادب، ریاضی اور فلکیات، منطق و فلسفہ، طبیعات اور کیمیا وغیرہ شامل تھے۔ یہاں مختلف تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے تعلیم حاصل کی، جن میں مسلم مفکّرین کے علاوہ وہ مسیحی اور یہودی اسکالرز بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد میں یورپی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔

جامعہ القرویین اور مغربی دنیا پر اثرات:فاطمہ الفہری کے قائم کردہ اس ادارے نے نہ صرف مسلم دنیا، بلکہ یورپ پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ مشہور یورپی اسکالر پوپ سلویسٹر دوم نے (جو بعد میں یورپ میں تعلیمی اصلاحات کے بانیوں میں شامل ہوئے) یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ 

اسی طرح ابنِ خلدون، ابنِ رشد، اور موسیٰ بن میمون جیسے مسلم مفکّرین بھی اس ادارے سے وابستہ رہے۔ نیز، اسی ادارے میں ’’یورپی جامعات کے تعلیمی ماڈل‘‘ کی بنیاد پڑی، اور بعد میں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درس گاہیں اسی روایت کو اپناتے ہوئے قائم ہوئیں۔

جامعہ القرویین کی علمی خدمات:جامعہ القرویین نے نہ صرف دینی اور سائنسی علوم کی تدریس کو فروغ دیا، بلکہ یہاں کی تعلیمی روایات نے دیگر اسلامی اور مغربی اداروں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نے نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ یورپی نشاۃِ ثانیہ کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا۔ 

ماضی میں قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں تعلیم کی روشنی پھیلانے والے کئی اہم مفکرین نے براہِ راست یا بالواسطہ جامعہ القرویین کے علمی سرمائے سے استفادہ کیا اور آج کے دور میں بھی جامعہ القرویین مراکش میں قائم ایک جدید یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں دنیا بھر سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ فاطمہ الفہری کا علمی ورثہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔

ان کا یہ کارنامہ مسلم خواتین کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی قابلیت، وسائل اور علم کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔فاطمہ الفہری کی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ تعلیم کا فروغ ہی وہ سرمایہ ہے، جو نہ صرف فرد بلکہ پوری دنیا کے لیے ترقی اور روشن خیالی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ 

فاطمہ الفہری نہ صرف ایک علم دوست شخصیت، بصیرت افروز رہنما، بلکہ ایک غیر معمولی منتظم بھی تھیں۔ انہوں نے جامعہ القرویین کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا، علمی مکالمے کو فروغ دیا، اور ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کیا، جو آج بھی دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے یہ عظیم کارنامہ ایک ایسے دَور میں سرانجام دیا، جب خواتین کے لیے معاشرتی سرگرمیوں میں شمولیت محدود سمجھی جاتی تھی۔

تاہم، انہوں نے اپنے وژن اور عزم سے یہ ثابت کیا کہ خواتین نہ صرف تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، بلکہ تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار بھی ادا کر سکتی ہیں۔ اگر آج ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں، تعلیم اور تحقیق کو اولین ترجیح بنائیں، تو ایک ترقی یافتہ ، باشعور معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید