• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی زندگی میں سانحات ، حادثات آتے اور گزر جاتے ہیں۔ دہشت گرد ہر گزرتے دن ہمارے جسم پر گہرے زخم لگاتے ، فرار ہوجاتے یا سیکورٹی فورسز کی گولیوں کانشانہ بن جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے چھوٹے بڑے واقعات میں فوجی جوان، سیکورٹی اہلکار، عام شہری، سرکاری ملازم، علماءکرام اپنی قیمتی جانیں وطن پر قربان کرکے ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ ہم اداروں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انگلیاں اٹھاتے ہیں، اپوزیشن اس بارے میں حکومت کو قصور وار ٹھہراتی ہے۔ حکومت اپوزیشن پر سیاسی عدم استحکام پھیلانے کا رونا روتی ہے۔ ادارے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوجوانوں سے بہت سی مثبت توقعات رکھتے ہیں۔ نوجوان ہیں کہ قیدی نمبر804 پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔ طاقت ور ادارے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اندرونی و بیرونی محاذوں پر بھرپور تعاون و حمایت بھی مانگتے ہیں لیکن عوام بغیر کسی ثبوت کےتمام تر بگاڑ کا ذمہ دار انہیں قرار دیتے ہیں۔ بلوچ پنجابی کو مار رہا ہے، سندھی وفاق سے اپنے حقوق اور نئی نہروںکے تنازعے پر ٹکرا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی چودہ سالہ حکومت وفاق سے اپنے حصے کے اربوں روپے کے مطالبات کرتے ہوئے چاہتی ہے کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کئے جائیں جبکہ وفاقی حکومت گنڈا پور حکومت پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتی ہے۔ کے پی کے حکومت کو سمجھانا مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے روح رواں مولانا حامدالحق حقانی حملے میں شہید کردیئے گئے۔ بنوں کینٹ پر برقع پوش خودکش حملہ آوروں نے یلغار کر دی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کا بیشتر اضلاع پر انتظامی کنٹرول ختم ہو چکا۔ کرم کے حالات بدستور تشویش ناک ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت افغانستان کی اسپانسرڈ دہشت گرد تنظیموں کے کارندے پورے صوبے میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہ جسے چاہتے ہیں اغوا کرکے تاوان وصول کرتے یا پھر جان سے مار دیتے ہیں۔بولان ٹرین ہائی جیکنگ کا بہت بڑا واقعہ گزر گیا، سیکورٹی فورسز کے جوانوں، پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں 33 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے22 شہریوں 4 ایف سی اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں اور ہم ایک بہت بڑے قومی سانحے سے بال بال بچ گئے۔ ایسے میں پارلیمان منہ میں انگلیاں دبائے صدر کے خطاب کا پوسٹ مارٹم کرتی رہی۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ اس ہنگامی صورت حال میں ایوان کی جاری کارروائی معطل کرکے کوئی چار لفظ دہشت گردوں کی اس کارروائی کی مذمت پر ہی بول دے۔ افسوس ہے ایسےبے حس لوگوں پر جو کوٹھی ، بنگلے، گاڑی، نوٹ، پٹرول، پروٹوکول اور مراعات کے لالچ میں اپنی قومی ذمہ داریاں بھول گئے۔ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔

بلوچستان میں بی ایل اے کی علیحدگی کی تحریک کے نام پر آگ اورخون کا کھیل جاری ہے اور ہم حالت جنگ میں ہیں۔ صوبائی حکومت کی ترجیحات دہشت گردی کی بجائے صوبائی اسمبلی کی پرانی عمارت گرا کر نئی عمارت کی تعمیر ہے۔ جس کیلئے راتوں رات کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے جا چکے ہیں۔ سنا ہے گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور بلوچستان میں اس آئینی عہدے دار کی خواہش کو اس طرح پورا کیا جارہا ہے کہ نئے گورنر ہاؤس کی تعمیر پرکروڑوں روپے برباد کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ کس کس بے حسی کا ماتم کریں! شہداءکی شہادتوںپر آنسو بہائیں یا حکمرانوں کی عیاشیوں کی داستانیں سنائیں۔ اپوزیشن قیدی نمبر 804 کی رہائی کے نام پر اپنی دکان چلا رہی ہے۔ حکمران اس قیدی سے سیاسی نجات کے نام پر دوسروں کو ڈرا رہے ہیں، اور وہ ان دونوں کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ کٹھ پتلی تماشے کے بے جان کردار آخر چاہتے کیا ہیں؟

بلوچستان اور خیبرپختونخوا جل رہے ہیں۔ ہماری غلطیوں کو دیکھتے ہوئے دشمن نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے جو بیج بوئے تھے وہ آج تناور درخت بن چکے ہیں۔ وہاں کوئی طاقت دکھائی نہیں دیتی۔ عدل و انصاف کا تو سوا ستیاناس ہو چکا ہے۔ گلی محلے میں معمولی تنازعات پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر لاشیں گرائی جارہی ہیں۔ دہشت گردی، اغوا، قتل ، لڑائی جھگڑے کی وارداتیں ہماری زندگی اور مزاج کا معمول بنتی جارہی ہیں۔ آپ مجھ کو اور میں آپ کومورد الزام ٹھہرا کرخوش اور مطمئن ہو رہے ہیں۔ اپنی نمازپڑھنے کی بجائے دوسروں کی رکعتیں گننے پر توجہ دینا ہمارا معاشرتی مشغلہ بن چکا ہے۔ دہشت گرد چاہے بی ایل اے کا ہو یا کالعدم ٹی ٹی پی کا دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ۔ وہ پاکستان مخالف ایک ہی ایجنڈے پر متحد ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم پاکستان بچانے کے ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکتے۔ یاد رکھیئے دہشت گردکسی کا باپ ہوتا نہ بیٹا نہ ہی اس کی کوئی ماںہوتی ہے نہ بہن۔ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے نتیجے میں معاملات حل ہو جائینگے تو یہ خام خیالی ہے۔ بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں بین الاقوامی سازش کو سنجیدگی سے سمجھئے۔ پاکستان بچانے والے فریقین اور اسٹیک ہولڈرز جب تک کسی ایک قومی ایجنڈے پر متحد نہیں ہونگے، اس ناسور سے نجات پانا ممکن نہیں ۔

تازہ ترین