• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ دانشور دوستوں کا خیال ہے کہ اس وقت جب جنوب مشرقی ایشیاء میں اہم تبدیلیاں آرہی ہیں تو پاکستانی لایعنی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ان کے خیال میں بھارت اور افغانستان میں ہونے والے انتخابات دورس نتائج کے حامل ہوں گے جبکہ پاکستان میں ہونے والی سیاست ایک طرح کا سرکس ہے کہ اس کا کوئی طویل المیعاد اثر نہیں ہوگا۔ ہمارا خیال ہے کہ بھارت اور افغانستان کے انتخابات اہم ہیں لیکن جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے بھی ملک کے نظام کیلئے بہت ہی گہرے نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا اور افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی جیت پاکستان کو خارجی طور پر متاثر کرے گی لیکن اس کے کلی بنیادی نظام کا استحکام درون ملک ہونے والی تبدیلیوں کا مرہون منت ہو گا۔
پاکستان میں اداروں کی کشمکش بہت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے اور قوم کے ارتقاء میں بہت ہی اہم مقام پر پہنچ چکی ہے۔ جنگ/جیو گروپ کی جدو جہد آزاد میڈیا کے ادارے کیلئے ہے اور اس کے نتیجے میں اس کا دوسرے اداروں کے ساتھ طاقت کا توازن طے ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ میڈیا اور دوسرے اداروں کے درمیان جاری و ساری طاقت کا توازن تبدیلی کا خواہاں ہے۔ بہت سے مبصرین کیلئے یہ ذاتی نوعیت کی چپقلش کا اظہار ہے لیکن اگر تاریخی پہلو سے دیکھیں تو اس کی اصل اہمیت اجاگر ہوگی۔
ستّر کی دہائی تک پاکستان ایک روایتی زرعی ملک تھا جس میں آزاد عدلیہ اور میڈیا کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ایک طرف عدلیہ ہر ڈکٹیٹرانہ آئینی تبدیلی کو نظریہ ضرورت کے تحت منظور کرنے کیلئے مجبور تھی تو دوسری طرف میڈیا کا گلا گھونٹنا بھی آسان تھا۔ جب ایوب خان نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ گروپ کو اس کے مالکان سے چھینا اور روشن خیال پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار کی تطہیر کی تو اس وقت کلی طور پر پاکستانی معاشرے میں اس زیاں کا کچھ زیادہ احساس نہیں تھا۔ اس زمانے کے مشہور صحافیوں (فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن وغیرہ) نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، صحافیوں نے بہت احتجاج بھی کیا لیکن وہ پروگریسو پیپرز کو بچا نہ سکے لیکن اب زمانہ تبدیل ہو چکا ہے۔جس طرح آزاد عدلیہ کے لئے 2007ء سے پیشتر تحریک نہیں چلی تھی اسی طرح میڈیا کی آزادی بھی ہنوز خواب تھا۔ اس زمانے کے میڈیا کے بہت سے حصوں پر حکومتی اجارہ داری تھی۔ ریڈیو پاکستان ،پاکستان ٹیلیویژن حکومتی ادارے تھے جو اکثر دانشوروں اور صحافیوں کے لئے واحد ذریعہ روزگار تھے۔ پاکستان کے اخبارات کو بھی زیادہ تر اشتہارات حکومت سے ہی ملتے تھے اس لئے ان کو بھی بہت آسانی کے ساتھ سنسر کر دیا جاتا تھا۔ غرضیکہ معاشی طور پر حکومت میڈیا کو آسانی کے ساتھ کنٹرول کر سکتی تھی، اب ایساکرنا آسان نہیں ہے۔اب پاکستان کی معیشت میں زرعی شعبہ بیس سے پچیس فیصد کے قریب ہے۔ اب مشینی پیداوار، تجارتی روابط، بجلی اور سڑکوں کی موجودگی کی وجہ سے شہروں اور دیہاتوں کا فرق بہت کم ہو چکا ہے۔ ویسے بھی شہروں کی طرف نقل مکانی کے نتیجے میں شہری آبادی تیس سے پینتیس فیصد ہو چکی ہے۔اب میڈیا کی مارکیٹ بہت وسیع ہو چکی ہے۔ اب نہ صرف درجنوں ٹی وی چینل ہر گھر تک پہنچتے ہیں بلکہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں کئی کئی ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہیں۔ اب میڈیا کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ حکومتی اشتہارات نہیں ہیں بلکہ پرائیویٹ مارکیٹ ہے۔ اسی طرح اس نئے میڈیا میں کارکنوں (صحافی، دانشور، تیکنیکی کارندے) کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جن کی آمدنی کا ذریعہ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی نہیں ہے۔ گویا نیا میڈیا بہت حدتک حکومتی شکنجے سے معاشی طور پر آزاد ہو چکا ہے۔
اب میڈیا اپنی ذات میں بہت بڑی انڈسٹری بن چکا ہے۔ اس انڈسٹری کی ضرورت ہے کہ اسے اطلاعات اکٹھی کرنے اور صارف تک پہنچانے (بیچنے )کی ویسے ہی آزادی ہو جیسی گندم اگانے والے یا سیمنٹ بنانے والے کو ہے۔ اس لئے اس میڈیا کا ان سارے پرانے ریاستی اداروں کے ساتھ بنیادی تضاد ہے جو اطلاعات کے اکٹھا کرنے یا صارف تک پہنچانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو آزاد عدلیہ کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ اس ادارے کے صارفین (عوام، وکلاء وغیرہ) بھی یہی چاہتے تھے کہ حکومت انصاف کے نظام کو سنسر نہ کرے اور انصاف کی فراہمی شفاف ہو۔
آزاد عدلیہ کی تحریک ایک لحاظ سے مختلف اور بہتر حالت میں تھی کیونکہ اس کے لئے جدوجہد کرنے والے وکلاء اور سماجی و سیاسی تنظیموں میں تقسیم اور انتشار نہیں تھا۔ اس کے الٹ اس وقت پاکستانی میڈیا منقسم نظر آتا ہے لیکن یہ منڈی میں مسابقت کی وجہ سے ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ میڈیا گروہوں میں ابھی بلوغت کی وہ حد نہیں آئی کہ پوری انڈسٹری اپنے مشترکہ مفادات کا ادراک کر سکے۔ ابھی میڈیا میں وہ مقابلہ بازی ہے جو عام طور پر کمسن انڈسٹریوں کا خاصا ہوتا ہے۔ ابھی بہت سے میڈیا گروپ یہ سمجھتے ہیں کہ جیو پر بندش لگنے سے ان کا کاربار بہتر ہو جائیگا۔ یہ منفی سوچ کسی نہ کسی طرح تبدیل ہوگی اور میڈیا کاادارہ ریاست کے دوسرے طاقتور اداروں کے ساتھ طاقت کا بہتر توازن بنا سکے گا۔اگر ایک طرف میڈیا کے حوالے سے اداروں میں طاقت کا توازن طے ہو رہا ہے تو دوسری پاکستان تحریک انصاف بھی اپنی تاریخ کی اہم جنگ لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ الیکشن کے ایک سال بعد دھاندلی کے خلاف دھرنے دینے اور تحریک چلانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس وہ ایشوز ختم ہو چکے ہیں جن کی بنا پر سیاسی میدان میں ہلچل مچائے رکھتی تھی۔ امریکہ کے ڈرون حملے بند ہونے کے بعد عمران خان اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں سب برائیوں کی جڑ ڈرون حملے ہیں جن سے دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کی خواہش کے مطابق حکومت نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کر کے بھی دیکھ لیا جن کا حسب توقع کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ان کی خیبر پختونخوا میں حکومت بھی کوئی قابل قدر حکمرانی کرکے نہیں دکھا سکی۔ عمران خان کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ ابھی تک کوئی سیاسی وژن بنا نہیں سکے مثلاً مسلم لیگ (ن) معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس پر زور دیتی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کوئی اچھی حکمرانی نہیں کر سکی لیکن پھر بھی انسانی حقوق کے تحفظ سے اس کی پہچان ہے۔ تحریک انصاف واحد بڑی جماعت ہے جس کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ اب تو ان کا کرپشن کے خلاف نعرہ بھی ماند پڑگیا ہے کیونکہ وہ خیبر پختونخوا میں ایک سال میں بدعنوانیوں کو ختم نہیں کر سکے۔ اب عمران خان کے پاس سوائے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شور مچانے کے کچھ کہنے کو باقی نہیں بچا۔اس کامطلب ہے کہ اگر ان کی گیارہ مئی کو شروع کی گئی تحریک ناکام ہو گئی تو ان کی پارٹی کا مستقبل زوال کا شکار ہو سکتاہےاوراگر ان کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو مڈٹرم الیکشنوں کا امکان بڑھ جائے گا۔ غرضیکہ دونوں صورتوں میں پاکستان تحریک انصاف کی تحریک کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
تازہ ترین