• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظام کے اجتماعی بانجھ پن سے جو محرومیاں جنم لیتی ہیں انہیں انفرادی سطح پر فیاضی و سخاوت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے پُشتے مضبوط نہ ہوں، ان میں ظلم وجبر اور ناانصافی کے شگاف پڑ جائیں تو فلاح و بہبود کے کنکر جمع کرکے سیلاب کوروکنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب تک نظام درست نہیں ہوتا، حکمران اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے ،ہم سب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں

ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود اُٹھاتا ہے اور اپنے فرائض سے اس بنیاد پر پہلو تہی نہیں کی جا سکتی کہ جو کام حکومتوں کے کرنے کا ہے ،وہ ہم کیوں کرتے پھریں ۔اسی سوچ اور فکر کے تحت وطن عزیز میں کئی فلاحی ادارے کام کررہے ہیں ۔کوئی لنگر خانے چلا کر بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی بچیوں کی شادیوں کیلئے جہیز کا بندوبست کرتا ہے، کوئی مریضوں کو علاج کیلئے مالی امداد فراہم کرتا ہے، کسی نے یتیم بچوں کی پرورش کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے، کوئی بے روزگاروں کو بلاسود قرض دیتا ہے تاکہ یہ لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں ،اسی طرح کچھ فلاحی تنظیمیں معذوروں کیلئے کام کر رہی ہیں، بعض فلاحی ادارے غربت کی دلدل میں دھنسے افراد کی مدد کرنے میں مصروف ہیں ۔الخدمت ،سیلانی ،اخوت اور دیگر فلاحی تنظیموں سے جڑے افراد مایوسی و نااُمیدی کے اندھیروں میں روشنی کا استعارہ ہیں۔مگر گزشتہ ماہ اپنی طرز کے ایک منفرد فلاحی ادارے کی قابل قدر خدمات کو دیکھنے کو موقع ملا۔ یہ لوگ ہمارے مستقبل پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنےکیلئے کوشاں ہیں۔ 31برس قبل محمود احمد صاحب نے ’’ریڈ فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک پودا لگایا جو اب ایک شجر سایہ دار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ محمود احمد صاحب نے اس کارخیر کا آغاز اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ مل کر 1994 میں کیا۔ ان سب نے پانچ پانچ ہزار روپے جمع کیے اور آزاد کشمیر میں ایک کمرے اور ایک استاد کے ذریعے پہلا سکول کھولا۔ پھر لوگ ملتے گئے اور کاررواں بنتا گیا۔ اس وقت ’’ریڈ فائونڈیشن‘‘ کے زیر انتظام چلائے جا رہے تعلیمی اداروں کی تعداد 569 تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں 400اسکول اور کالج،120 لٹریسی سینٹرز اور 49ایسے اسکول ہیں جو حکومت پنجاب کی طرف سے اس فاؤنڈیشن کے سپرد کیے گئے ہیں۔ ’’ریڈ فاؤنڈیشن‘‘ کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد سوا لاکھ ہے۔ ان طلبہ میں سے 30 ہزار غریب اور یتیم بچے ہیں جو بلا معاوضہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں جب بھی کسی فلاحی ادارے کے بارے میں سنتا ہوں تو سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس کو چلانے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے کیونکہ جو فلاحی منصوبے محض چندہ جمع کرکے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے ،وہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ جب اس سے جڑے افراد یا ڈونرز انتقال کرجاتے ہیں تو یہ فلاحی منصوبے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ’’ریڈ فائونڈیشن‘‘ میں سب بچوں کو مفت داخلہ نہیں دیا جاتا، صرف ضرورت مند اور یتیم بچوں کو بلا معاوضہ تعلیم دی جاتی ہے اور باقی بچوں سے فیس لی جاتی ہے تاکہ تعلیمی اداروں کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس وقت 8ہزار خاندانوں کومالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

’’ریڈفاؤنڈیشن‘‘ مخیر حضرات کے تعاون سے 200تعلیمی اداروں کیلئے عمارتیں تعمیر کر چکی ہے۔

تھر کے صحرا سے دیامر کے پہاڑوں تک ایسے علاقے جہاں اسکول بنانا ممکن نہیں وہاں بچیوں کی تعلیم کیلئے 120 لٹریسی سینٹرز بنائے گئے ہیں۔ کہیں لوگ زمین کا عطیہ دیتے ہیں تو کوئی صاحب ثروت شخص عمارت تعمیر کرنے کیلئے اخراجات کی ذمہ داری لے لیتا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق ایک یتیم بچے کے سالانہ تعلیمی اخراجات کا تخمینہ 48000 روپے ہے۔ آپ یہ رقم ادا کرکے کسی بھی یتیم بچے کو پڑھانے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔ آپ ایک یا زائد بچوں کی کفالت کرنا چاہیں تو آپ کو ان بچوں کی کارکردگی رپورٹ سمیت تمام تفصیلات سے باخبر رکھا جائے گا۔ اگر آپ ماہ صیام میں زکوۃ، صدقات، عطیات، فطرہ یا کسی اور مد میں ’’ریڈ فاؤنڈیشن‘‘ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں تومیزان بینک اکائونٹ ٹائٹل’’READ FOUNDATION‘‘ اکائونٹ نمبر:0 3 0 3 0 1 0 0 2 3 5 7 8 8 یا پھر IBAN نمبر PK57MEZN0003030100235788

میں رقوم جمع کروائی جاسکتی ہیں۔

اسی طرح لاہور میں معیاری تعلیم کیلئے ’’دی ٹرسٹ اسکول‘‘ نامی فلاحی تنظیم سرگرم عمل ہے۔ غالباً لاہور میں 6تعلیمی ادارے چلائے جا رہے ہیں اگر آپ ان میں سے کسی اسکول کا دورہ کریں تو ہرگز یقین نہیں کرینگے کہ کوئی فلاحی تنظیم بھی اس معیار کے تعلیمی ادارے چلا سکتی ہے۔ اگر آپ ’’دی ٹرسٹ اسکول‘‘ کیساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں تو ایم سی بی بنک میں اکائونٹ ٹائٹل ’’Trust for Education and Development of Deserving Students‘‘جبکہ اکائونٹ نمبر 007760201006243-1 اور 007760101002529-4 ہے۔ انکے علاوہ بھی آپ جہاں کہیں جس فلاحی ادارے کو عطیات دینا چاہتے ہیں، ضرور دیں اور اپنے حصے کی شمع روشن کریں تاکہ جہالت و پسماندگی کے اندھیرے کم ہوں۔ ویسے تو کسی بھی شعبہ میں ضرورت مند افراد کی امداد کی جا سکتی ہے مگر وہ بچے جو ہمارا مستقبل ہیں ،ان پر خرچ کرنا بہترین اور نہایت منافع بخش سرمایہ کاری ہے۔

تازہ ترین