مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ربّ العالمین نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ذی رُوح، موت کے آگے عاجز و بے بس ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دنیا میں کسی کو دوام حاصل نہیں، اپنوں کی جدائی دلوں کو گھائل کرتی، رُوح کا قرار چھین لیتی ہے، یہاں تک کہ پیچھے رہ جانے والوں کو زندہ درگور کردیتی ہے۔
ہمہ وقت ساتھ رہنے والوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک ایسا سمندر چھوڑ جاتی ہے، جو پھرکبھی خشک نہیں ہوتا۔ میرے والد، عاشق حسین، جن کا وجود ہمارے لیے ایک سائبان سے کم نہ تھا، ایک انتہائی مہربان اور شفیق باپ تھے۔ اولاد کے ساتھ اُن کا رویّہ حددرجہ دوستانہ تھا، مسکراہٹ تو اُن کے چہرے کا حصّہ تھی۔ اگرچہ نحیف، مگر سخت جان تھے۔ گھریلو امور کی بجاآوری کے لیے ہروقت کمربستہ رہتے۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود پانچوں وقت کی نمازباقاعدگی سے مسجد میں ادا کرتے۔
خلوص و محبت کے پیکر، میرے والد عاشق حسین1944ء کو ضلع بھاول نگر کی سب تحصیل ڈاہرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں176 مراد میں پیدا ہوئے۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس ترتیب سے سب بہن بھائی دنیا میں آئے، اسی ترتیب سے اس جہانِ فانی سے کوچ بھی کیا۔ میرے والد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں، جب کہ میٹرک کا امتحان 1960ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ڈاہرانوالہ سے پاس کیا۔ 1967ء میں ویسٹ جرمنی ٹیلی فون لائنزسے، جس نے بعدازاں پاکستان ٹیلی فون کے نام سے کام شروع کیا، بحیثیت کیبل ٹیکنیشن اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور دورانِ ملازمت وقتاً فوقتاً پنجاب کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں تعینات رہے۔
تاہم، مستقل تعیناتی ٹیلی فون ایکسچینج، بہاول پور میں رہی۔ کچھ عرصہ لاہور میں نئے ملازمین کو ٹریننگ بھی دیتے رہے۔ دورانِ ملازمت متعدد بار انھیں بحیثیت ایس ڈی او فونز، پروموشن کے آرڈرز آئے، مگر انھوں نے اہلیہ کی علالت اور بچّوں کی نگہداشت کی خاطر محکمے کی جانب سے دی جانے والی پروموشن ٹھکرادی۔
میرے والد پیشہ ورانہ تیکنیکی امور اور اپنے شعبے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ 1995ء میں اٹھائیس سالہ شان دارملازمت کے بعدقبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور17دسمبر 2021ء کو عارضۂ قلب کے باعث خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میرے والد بزرگوار، عاشق حسین کی بخشش فرمائے، اُن کے درجات بلندفرمائے، آمین۔ (شہزاد حسین،نذیر آباد کالونی، ملتان روڈ، بہاول پور)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭میری کہانی (نورجہاں) ٭خالو کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ (ضیاء الحسن، مظفر گڑھ) ٭احساسِ سودو زیاں (روزینہ خورشید، کراچی)٭ آدھی رات کا راز+مَیں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا+بیت المال سے امداد (ظہیر انجم تبسّم ، جی پی او، خوشاب)٭ میری کہانی، میری زبانی (رفعت سلطانہ) ٭پرندے کی قبر (انجینئر محمد فاروق جان، اسلام آباد)٭بنتِ حوّا (محمد جاوید اقبال، وحدت کالونی، لاہور)٭جب طاقتیں مرضی کے تابع ہوگئیں (محمد جاوید افضل علوی، کالج روڈ، لاہور)٭پاک فوج نے بچالیا (جاوید محسن ملک، اسلام آباد)٭ میری کہانی (ف۔ن)٭دس سال پرانی بات(مغیث الحسن بدایونی ہاشمی، ناگن چورنگی، کراچی)٭جاں نثار (ثروت اقبال،کراچی)