• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عید الفطر‘‘ انعاماتِ الٰہی سے دامن بھَرنے کا دن

عیدالفطر وہ خاص الخاص دِن ہے کہ جس روز اللہ تعالیٰ اپنے چُنیدہ بندوں پر کہ جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، خشوع و خضوع سےعبادات کیں، نمازِ پنج گانہ قائم کی، نمازِ تراویح پڑھی اور قرآنِ پاک کی تلاوت کے ساتھ شریعتِ مطہرہ کے مطابق احکاماتِ خداوندی بجالاتے ہوئے اپنے شب وروز گزارے، اپنا خصوصی فضل و کرم فرماتا ہے، کیوں کہ پروردگارِعالم کی ذاتِ مقدّسہ بڑی رحیم و کریم ہے۔ 

حضرت سیّدنا عبداللہ ابنِ عبّاسؓ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم نے فرمایا : جب عیدالفطر کی مبارک رات آتی ہے، تو اُسے ”جزا کی رات“ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جب عیدالفطر کی صُبح ہوتی ہے، تو ربِّ قدوس اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں اور فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں، راستوں کے کناروں پرکھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح نِدا دیتے ہیں کہ اے اُمّتِ محمدیہ! اس ربِّ کریم کی بارگاہِ مقدّس کی طرف چلو، جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف کرنے والا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! مانگو، کیا مانگتے ہو؟ میری عزّت وجلال کی قسم، آج کے روز اس (نمازِعید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، پورا کروں گا اور جو کچھ دُنیا کے لیے مانگو گے، اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا۔ 

یعنی اس میں تمہارے ساتھ وہ معاملہ کروں گا، جو تمہارے لیے بہتر ہوگا، کیوں کہ میری حکمتیں تمہاری ذہنی وسعت سے بالا ہیں۔ میری عزّت کی قسم، جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے، مَیں تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔ میری عزّت وجلال کی قسم، مَیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنےگھر کی طرف بخشے بخشائے لوٹ جاؤ۔ تم نے مُجھے راضی کردیا اور مَیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘

اس صورتِ حال میں شیطان کا جلنا، کُڑھنا اور خُود کو پیٹنا ایک فطری اَمر ہے۔ حضورِ اقدس کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’جب یومِ عید آتا ہے، تو شیطان چِلاّ چِلاّ کر روتا ہے۔ اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کرتمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اے آقا! تجھے کس چیز نےغم ناک اوراُداس کردیا ہے؟ شیطان کہتا ہے کہ ہائے افسوس! اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمّتِ محمدیہ کی بخشش فرمادی ہے، لہٰذا تم اُنہیں لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کر دو۔‘‘ ایک بارحضرت علیؓ کے پاس عید کے روزایک شخص آیا۔ اُس وقت آپؓ چنے کی روٹی تناول فرمارہے تھے۔ 

اُس شخص نےپوچھا کہ ’’آج تو عید کا روز ہے اور آپؓ چنے کی روٹی تناول فرما رہے ہیں۔‘‘ اُس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ’’عید اُس کی ہے، جس کے روزے قبول ہوگئے، جس کی خطائیں معاف کردی گئیں، جس کی کوشش مشکور ہوگئی۔ آج بھی عید ہے، کل بھی عید ہوگی اور جس جس روز ہم اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے، اُس اُس روز ہماری عید ہوگی۔‘‘ 

اِسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نےعید کے روز اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا، تو آب دِیدہ ہوگئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’بیٹا! مُجھےاندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکےتُجھے پھٹی پُرانی قمیص میں دیکھیں گے، تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا۔‘‘ بیٹے نے جواباً عرض کیا کہ ’’دل تو اُس کا ٹوٹے گا کہ جو رضائے الہٰی کو نہ پا سکا اور جس نے اپنےماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مُجھے امید ہے کہ آپؓ کی رضا مندی کے طفیل اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوگا۔‘‘ یہ سُن کر حضرت عُمرؓ نے بیٹے کو گلے لگا لیا اوراس کے لیے دُعا فرمائی۔

ایک مرتبہ حضرت عُمربن خطابؓ کے دَورِ خلافت میں لوگ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد کاشانہ ٔخلافت پر حاضر ہوئے، تو دیکھا کہ آپؓ دروازہ بند کرکے زاروقطار رورہے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا، ’’اے امیرالمؤمنین! آج توعید کا مقدّس دن ہے۔ اس دن توخوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپؓ خوش ہونے کی بجائے رو رہے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: ’’اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کی نماز، روزے اور عباداتِ رمضان المبارک قبول ہوگئیں، بلاشُبہ آج اُس کے لیے عید کا دن ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، تو اُس کے لیے آج کا دن وعید کا دن ہے اور مَیں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مُجھے نہیں معلوم کہ میری عبادات قبول ہوئیں یا انہیں رَد کردیا گیا ہے۔‘‘

عید کا دن خوشی و مسرّت کا دن بھی ہے اور اللہ سےانعامات پانےکا بھی۔ یہ محبّتیں، خوشیاں بانٹنے اور گِلے شکوے دُور کر کے ناراض اور روٹھے ہوئے احباب کو منانے کا دن ہے۔ بالخصوص یہ ”یوم تشکّر“ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک میں روزے رکھنے، نمازِ پنج گانہ کی ادائی، نمازِ تراویح کےاہتمام، قرآنِ پاک کی تلاوت اور راتوں کو اُٹھ کر نوافل ادا کرنے کی توفیق بخشی اور حق بھی یہی ہے کہ عید کو پروردگارِ عالم کا ذکر اور حضورﷺ کی مدح سرائی کرتے ہوئےغربا، مساکین اور یتیم بچّوں کے سَر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے ”یومِ تشکر“ کے طور پر منایا جائے۔