رابعہ فاطمہ
عید خوشی و مسرّت، ایثار و اخوّت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جو اسلامی تہذیب کی رُوح میں رچا بسا ہے۔ یہ محض ایک تہوار نہیں، بلکہ تعلقات کی تجدید، خلوص ومحبّت کے فروغ اور سماجی یک جہتی کا ایک منفرد موقع ہے۔ عید کا دن جہاں عبادت، شُکرگزاری اور سخاوت و فیاضی جیسی حسین روایات سے مزیّن ہے، وہیں خاندانوں کے ملاپ، دوستوں کی ملاقاتوں اور خوشی و مسرّت کے لمحات کا آئینہ دار بھی ہے۔
تاہم، جدید ٹیکنالوجی کے زیرِاثر زندگی کے دیگرشعبوں کی طرح عید کا مفہوم بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے اوروہ خوشیاں جو کبھی اپنوں کی قُربت میں سمیٹی جاتی تھیں، اب موبائل فون کیمروں کی آنکھ میں قید ہو کر سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔
عید کی خوشیاں، سوشل میڈیا کی یرغمال
بدقسمتی سے آج عید کی خوشی کا اظہار حقیقی میل ملاپ اور ملاقاتوں کی بجائے تصاویر اور سیلفیز کے ذریعے کیا جانے لگا ہے۔ اب عیدین کے موقعے پر تقریباً ہر فرد ہی اپنی بہترین زاویے سے تصویر کھینچنے، اُسے فلٹرز کی مدد سے مزید دِل کَش بنانے اور پھر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے زیادہ سے زیادہ ”لائکس“ اور ”کمنٹس“ بٹورنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا کی اس لت نے نہ صرف عید کی اصل رُوح کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے بلکہ ہمارے سماجی رویّوں میں بھی ایک غیرمحسوس سی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ تصاویر اور سیلفیز حقیقی خوشی کامظہرہیں یا محض سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے کا ایک ذریعہ ہیں؟
ماضی کی عید اور موجودہ ڈیجیٹل کلچر
ماضی میں عیدین کی صُبحیں خاص روحانی و جذباتی کیفیات کی حامل ہوتی تھیں۔ نمازِ عید ادا کرنے کے بعد بزرگوں کی دُعائیں لینا، رشتے داروں سے میل ملاقاتیں، مستحقین کی دل جوئی ہماری روایات کا حصّہ تھا۔ مگر آج عید کے موقعے پر ان تمام اقداروجذبات کو پسِ پُشت ڈال کرسب سے پہلے سیلفیز لینا اور پھر اُنہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا گویا ایک لازمی رسم بن چُکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نمازِعید کے فوراً بعد ہی فیس بُک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تصاویر کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ رجحان محض خوشی کو قید کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک غیرمحسوس مسابقت بھی ہے۔
خُوب صُورت لباس، قیمتی جوتے، پُرتکلّف ضیافتیں اور دِل کَش مقامات سمیت عید سے جُڑی دیگر روایات ایک ایسی دوڑ کا حصّہ بن چُکی ہیں کہ جس میں ہر کوئی اپنی خوشیوں کو سب سےزیادہ متاثر کُن انداز میں پیش کرنا چاہتا ہے اور اِس دوڑ میں لوگ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں عید کے لمحات سے حقیقی معنوں میں لُطف اندوز ہونا یاد ہی نہیں رہتا۔
نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی اثرات
عید کے قیمتی اور یادگارلمحات سوشل میڈیا کے نذر کرنے کے نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی اثرات بھی نہایت گہرے ہیں۔ ایک طرف یہ کلچر اُن لوگوں میں کم مائیگی کا احساس پیدا کر رہا ہے کہ جو عید کے موقعے پر کسی بھی وجہ سے منہگے ملبوسات پہننے اور شان دار تقریبات یا دِل کش مقامات پر جانے سے قاصر ہیں، تو دوسری جانب اس رجحان نے عید کی حقیقی خوشیوں کو ایک سطحی اور نمائشی مقابلے میں بدل دیا ہے، جہاں محبّت، خلوص اور باہمی مسرّت کی بجائے محض سوشل میڈیا پرحاصل کردہ ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ ہی کو خوشی کا پیمانہ سمجھا جانے لگا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے جہاں ایک طرف دُور دراز بسنے والے عزیزواقارب سے رابطے کو آسان بنا دیا ہے، وہیں اس نے حقیقی انسانی تعلقات کو مصنوعی اور سرسری سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔ وہ عید، جو کبھی محبّت و یگانگت کے اظہار کا دن ہوا کرتی تھی، اب محض ایک ’’آن لائن ایونٹ‘‘ میں تبدیل ہوچُکی ہےاور وہ ملاقاتیں، جو پہلےگرم جوش مصافحوں، معانقوں اور دُعاؤں سے معمور ہوا کرتی تھیں، اب چند ڈیجیٹل پوسٹس، ایموجیز اور تبصروں میں سمٹ چُکی ہیں۔
جدیدیت اور روایت میں توازن کیسے؟
اگر ماضی کی عیدین کا جائزہ لیا جائے، تو وہ آج کے مقابلے میں خلوص، سادگی اور اپنائیت سے کہیں زیادہ لب ریز ہوتی تھیں۔ عید کے موقعے پر گھر مہمانوں کی چہل پہل سے آباد ہوتے، بچّوں کی قلقاریاں فضاؤں میں گونجتی رہتیں اور بزرگوں کی شفقت بَھری باتیں اور عید کارڈز کا تبادلہ ایک لازمی روایت تھی۔ اس کے برعکس آج کی عید، ڈیجیٹل فریم میں قید ہو چُکی ہے اور حقیقت کی جگہ فلٹرز اور جذبات کی جگہ کیپشنز نے لے لی ہے
اسلامی تعلیمات کے مطابق عید کا مقصد ومطلب محبّت و مسرّت کا تبادلہ، حاجت مندوں کی اعانت اور سماجی ہم آہنگی کا فروغ ہے۔ مگر آج یہ تہوار خُودنمائی، مقابلہ آرائی اور مصنوعی مسکراہٹوں کی نذرہو رہا ہے۔ حقیقی جذبات اور اپنائیت کو نظرانداز کرکے لوگ سوشل میڈیا پر ملنے والی توجّہ کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔
اگر عید محض تصویریں کھینچنے اور انہیں پوسٹ کرنے کا نام رہ گئی ہے، تو وہ وقت دُورنہیں کہ جب عید کی خوشیاں محض ایک سطحی ڈیجیٹل تقریب بن کر رہ جائیں گی، جہاں حقیقی مسرّت اور قُربت کی جگہ محض ”لائکس“ اور ”ویوز“ لے لیں گے۔
وقت آچُکا ہے کہ ہم عید کے اصل مفہوم پر غور کریں اور اِس دن کواِس کی حقیقی رُوح کے ساتھ منائیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی کے درمیان توازن پیدا کریں، مصنوعی مسابقت سے گریز کریں اور اپنوں کے ساتھ خوشی کےاصل لمحات سے لُطف اندوز ہوں۔ اس ضمن میں ہم ایک ”نو سوشل میڈیا چیلنج“ اپناسکتے ہیں، جس میں عید کے دن کا زیادہ حصّہ اپنے پیاروں کے ساتھ گزاریں اور ڈیجیٹل دُنیا سے کچھ دیر کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔
اس کے علاوہ ہمیں بچّوں اورنوجوانوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عید کی خوشی صرف تصویروں اور پوسٹس میں نہیں، بلکہ اُن لمحات میں ہے کہ جو ہم اپنوں کے ساتھ گزارتے ہیں، ان محبّتوں میں ہے، جو بےغرض ہوتی ہیں اور ان خوشبوؤں میں ہے کہ جو خلوص کے لمس سے مہکتی ہیں۔ عید صرف ایک تہوار نہیں، یہ محبّت، اخوّت اور اجتماعیت کا استعارہ ہے۔
اگر ہم اپنے رویّوں میں توازن لےا ٓئیں اور عید کی حقیقی خوشیوں کو فوقیت دیں، تو جدیدیت اور روایت کو ہم آہنگ بھی کرسکتے ہیں، بجائے اس کے کہ عید کی اصل رُوح کہیں کھوجائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس دن کو حقیقی معنوں میں جینے کی کوشش کریں، اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزاریں، خلوص و محبّت کو فروغ دیں اور عید کی خوشیوں کو سوشل میڈیا کی بجائے حقیقی زندگی میں محسوس کریں۔