جب جہاز نے میقات کی حدود پار کیں، تو اعلان ہوا کہ اس وقت مکہ میں بارش ہو رہی ہے۔ یہ خبر میرے دل کی دھڑکن تیز کر گئی۔ اللہ کی رحمت کی بارش، جو اس کے مہمانوں کیلئے خاص طور پر نازل ہوتی ہے، اور میں خوش نصیب تھا کہ اس لمحے یہاں موجود تھا۔ جہاز جتنا مقدس سرزمین کے قریب پہنچ رہا تھا، دل کی کیفیت اتنی ہی عجیب ہوتی جا رہی تھی اور آنکھیں بے اختیار نم ہونے لگیں۔ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ایک مانوس خوشبو نے استقبال کیا۔ یہ وہی خوشبو تھی جو صدیوں سے حاجیوں اور زائرین کے دلوں میں بسی ہوئی ہے، وہی جو اللہ کے گھر کا راستہ دکھاتی ہے، وہی جو روح کو سکون سے بھر دیتی ہے۔ اس موقع پر میں اپنے دیرینہ ساتھی رانا شوکت کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے جدہ میں پرتکلف افطار کا اہتمام کیا اور پھر محبت سے مکہ معظمہ تک پہنچایا۔ مکہ پہنچنے پر، جیسے ہی ہم مسجد الحرام میں داخل ہوئے، تو منظر ناقابلِ یقین تھا۔ بیت اللہ کا سیاہ غلاف بارش سے تر تھا، روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور اس کے گرد لاکھوں مسلمان طواف میں مشغول تھے۔ بارش کے ہر قطرے کے ساتھ لگتا تھا جیسے رحمتیں نازل ہو رہی ہیں، جیسے دعائیں زمین سے آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہیں اور جیسے فرشتے بھی اس مقدس لمحے میں شریک ہو چکے ہیں۔یہ رمضان المبارک کی اکیسویں شب تھی، جب مغفرت اور رحمت کی برسات آسمان سے نازل ہو رہی تھی۔ جیسے ہی میں نے مسجد الحرام میں قدم رکھا، دل میں ایک ناقابلِ بیان سکون اُتر آیا۔ مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلی خواہش زمزم پینے کی تھی، وہی پانی جو ہزاروں سال پہلے حضرت ہاجرہؑ کے لیے اللہ نے زمین سے جاری کیا تھا۔ وہی پانی جو صدیوں سے لاکھوں حجاج کی پیاس بجھا رہا ہے اور جو آج بھی تروتازہ، شفاف اور شفا دینے والا ہے۔ جب پہلا گھونٹ حلق سے اترا، تو دل میں ایک ناقابلِ بیان تازگی محسوس ہوئی۔ ہر گھونٹ کے ساتھ زبان پر ایک ہی دعا تھی:اے اللہ! مجھے علم نافع، رزق حلال اور بیماریوں سے شفا عطا فرما۔
یہ وہ رات تھی جب تقدیریں لکھی جا رہی تھیں، جب گناہوں کے دروازے بند ہو رہے تھے، اور جب رحمتوں کے دروازے پورے جاہ و جلال سے کھل رہے تھے۔ مسجد الحرام میں لاکھوں لوگ قیام میں تھے، ہاتھ بلند تھے اور زبانیں توبہ اور استغفار میں مشغول تھیں۔اس سفر میں میری والدہ، بھائی اور دس سالہ بھتیجا حافظ مصطفیٰ میرے ساتھ تھے۔
اب فجر کی نماز کا وقت آ چکا تھا، مسجد الحرام کا صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا، ہر کوئی اللہ کے حضور جھکنے کیلئے بے تاب تھا۔ جیسے ہی امامِ کعبہ کی آواز گونجی:استووا… اقیموا صفوفکم و اعتدلوا…پورے حرم میں سکون چھا گیا۔ ایک لمحے کے لیے دنیا تھم گئی، اور پھر جب‘‘ اللہ اکبر ’’کی صدا بلند ہوئی، تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔
نماز کے بعد دل بے چین تھا، بیت اللہ کے مزید قریب ہونے کی خواہش جاگ اُٹھی۔ میں نے نیت کی اور طواف شروع کر دیا۔ پہلا چکر، دوسرا، تیسرا… ہر قدم کے ساتھ دل مزید جھک رہا تھا، آنکھیں مزید برس رہی تھیں ۔ جب حجرِ اسود کے قریب پہنچا، تو ہاتھ اٹھا کر اسے چومنے کا اشارہ کیا۔ ایسا لگا جیسے صدیوں پہلے اسی جگہ سے مکہ کی وادی میں اذانِ توحید کی گونج اٹھی ہو، جیسے یہی وہ مقام ہو جہاں ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ نے اللہ کے حکم سے اس گھر کی تعمیر کی ہو۔ ملتزم پر پہنچ کر، جہاں دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، میں نے اپنے ہاتھ دیوارِ کعبہ پر رکھے اور دل کی سب سے گہری خواہش اللہ کے حضور پیش کر دی۔ زبان پر الفاظ ختم ہو چکے تھے، مگر آنکھوں سے بہتے آنسو ہر دعا کا ترجمہ کر رہے تھے۔
اس منظر کے ساتھ ہی ایک اور بات نے دل کو بے حد متاثر کیا، وہ تھی سعودی حکومت اور انتظامیہ کی بے مثال خدمت۔ لاکھوں زائرین کے اس جم غفیر کو جس حسنِ انتظام کے ساتھ سنبھالا جا رہا تھا، وہ قابلِ تعریف تھا۔ مکہ اور مدینہ کی انتظامیہ نے زائرین کیلئے بہترین سہولتیں فراہم کیں، ہر جگہ خدام مستعد کھڑے تھے، راستے منظم تھے، صفیں صاف ستھری تھیں، ٹھنڈا زمزم دستیاب تھا، اور نماز کیلئےبہترین سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔
جب میں نے خانہ کعبہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا، تو دل میں ایک اور تمنا جاگی مدینہ جانے کی، نبی کریم ﷺ کے در پر حاضری کی۔ روضہ رسول ﷺ کا سبز گنبد، وہ در و دیوار، جہاں میرے آقا ﷺ نے دس برس گزارے، وہ زمین، جس نے نبی رحمت ﷺ کے قدموں کو محسوس کیا، وہ منبر، جہاں سے انہوں نے اپنی امت کو مخاطب کیا۔یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ اصل منزل مدینہ ہے۔ اور میں جانتا ہوں، جب میں وہاں پہنچوں گا، جب میں سبز گنبد کو دیکھوں گا، جب میں ’’السلام علیک یا رسول اللہ‘‘ کہوں گا، تب میری روح کو وہ قرار ملے گا جس کی خواہش ہر عاشقِ رسول ﷺ کے دل میں ہوتی ہے۔