• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی اور جون دو مہینے وزیر اور وزارت خزانہ کیلئے بڑے کٹھن ہوتے ہیں۔ جون میں اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے، مئی اور جون میں رواں سال کے بجٹ کی زیادہ سے زیادہ وصولیابیوں کے سلسلے کو نبھانا ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق جولائی 13اور اپریل 2014ء کے دس ماہ میں 1745ارب روپے کے محصولات جمع ہوئے جبکہ ہدف 2345 ارب روپے تھا یعنی دوماہ میں 600 ارب روپے وصول کرنا ہوں گے جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب 2014-15ء میں بجٹ کا حجم 37؍ارب کے قریب رکھنے کی تجویز ہے اور 27ارب اسکیموں سے حاصل کرنے کی توقع ہے چنانچہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں۔
اس میں ایک مسئلہ زرمبادلہ کے ذخائر کا ہے جو ایک وقت 6؍ارب تک پہنچ گئے تھے اب وزیر خزانہ بغلیں بجانے پر حق بجانب ہیں۔ فی الحال یہ ذخائر 12؍ارب سے تجاوز کر چکے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ 30؍جون تک یہ 15؍ارب ہو جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ رواں سال میں بیرون ممالک میں مقیم محنت کشوں نے بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں کچھ زیادہ رقوم بھیجیں مگر اس میں ایک ملک کی عطیہ کی گئی رقم، مالیاتی فنڈ کے قرضے کی قسط، ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ایک منصوبے کی خاطر دی جانے والی رقم، جی۔3 اور جی۔4 کی نیلامی سے ملنے والی رقم اور دو یورو بانڈز سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا ہاتھ ہے۔ چین اور بھارت کے ذخائر سے تو مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ بنگلہ دیش کو دیکھئے جو 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا جس کو اکثر سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کی واحد بڑی فصل دھان کو زبردست نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ ٹیکسٹائل کی صنعت میں ہم سے آگے بڑھ چکا ہے حالانکہ وہاں کپاس کی کوئی خاص پیداوار نہیں، اس کو روئی اور دھاگا درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس کی شرح نمو بھی ہم سے زیادہ ہے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی 20؍ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ایک سوشل ورکر ڈاکٹر محمد یونس نے گرامین بینک قائم کر کے دیہی کسانوں کی قسمت بدل دی اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔
یہ بات الگ ہے کہ غربا کے اس محسن کو نہ صرف بینک سے علیحدہ کر دیا گیا بلکہ اس پر الزامات لگا کر مقدمہ بھی چلایا گیا۔ پاکستان نے پہلی مرتبہ عالمی مارکیٹ میں بھاری رقوم کے دو یورو بانڈز جاری کئے۔ ایک پانچ سالہ دوسرا دس سالہ۔ پہلے پر 7.25 فیصد اور دوسرے پر 8.25 فیصد سالانہ سود ادا کرنا ہو گا۔ انشورنس کمپنی کو ایک فیصد دینا ہو گا۔ یہ بانڈز امریکہ کو 59 فیصد، برطانیہ کو 19؍فیصد، یورپ اور ایشیائی ممالک کو 10-10 فیصد تقسیم کئے گئے۔ بانڈز پر عموماً 3 یا 4 فیصد شرح سود ہوتی ہے جیسے سری لنکا کے بانڈ پر شرح 5؍فیصد ہے۔ بھاری سود کی وجہ سے یہ بانڈز ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہو گئے۔ اس وقت تو بھاری رقم مل گئی مگر سوال یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کیسے ہو گی؟ اگر اس رقم کو بجٹ کے مالی خسارے کیلئے استعمال کیا گیا تو یہ گھاٹے کا سودا ہے، اگر ان کو پرانے قرضوں کے زر اصل اور سود کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا گیا تو کم شرح سود والے قرضے تو ادا ہو جائیں گے مگر بھاری شرح سود کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ کیا ان کو کسی ایسے کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے جہاں 7.25+1 اور 8.25+1 سے زیادہ منافع ہو تاکہ ان کی ادائیگی میں کوئی دقّت نہ ہو۔ کسی بھی نئے کاروبار میں ابتدا میں ان شرحوں کے مطابق منافع نہیں ملتا۔ اس وقت بھی ہمارے بجٹ میں دفاع کے بعد دوسری بڑی حد زر اصل اور سود کی ادائیگی کی ہے۔ یکم جولائی 2013ء سے فروری 2014ء تک 728؍ملین ڈالر کا منافع اور ڈیویڈنڈ کی رقوم باہر گئیں، اب یہ رقم مزید بڑھ جائے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں چار لاکھ نئے ٹیکس گزار شامل کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایسی خوشخبریاں سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے مگر کسی خوشخبری نے عملی شکل اختیار نہیں کی۔
ہمارے اسٹاک مارکیٹ کا 100 والا انڈکس تاریخ کی بلند ترین شرح 29250 پوائنٹس پر پہنچ گیا تھا لیکن جب اسٹیٹ بینک نے 25ارب کا اضافی سرمایہ نکال لیا یہ سرمایہ اوپن مارکیٹ میں ٹی بلز فروخت کر کے نکالا گیا تھا تو تین دنوں میں اسٹاک مارکیٹ میں 600 پوائنٹس گر گئے۔ دوسری طرف ڈالر 99.28 کے بجائے 99.69 کا ہو گیا۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب چند روز پہلے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھی اور ڈالر 113 سے گر کر 98 روپے کا ہو گیا تو وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اگر ڈالر 98 روپے سے نیچے گرتا ہے تو برآمدکنندگان کو نقصان ہو گا یعنی ان کو برآمدات کی قیمت کم ملے گی۔ یہاں چند لاکھ برآمد کاروں کا تو خیال رکھا گیا مگر 19کروڑ افراد کے فائدے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے مگر اس کے مطابق ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اس کے خیال میں شرح نمو 3.3 فیصد رہے گی جبکہ وزیر خزانہ کے مطابق 4فیصد ہو گی۔ پہلی مرتبہ وزارت خزانہ نے اعتراف کیا کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہے۔ مہنگائی کے ذیل میں سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اولاً تو وزیر خزانہ نے اس سال اضافے سے انکار کر دیا تھا مگر اس کے ردّعمل کے بعد 10؍فیصد اضافے کی توقع دلائی۔ تازہ ترین اعلان میں کہا گیا ہے کہ تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کریں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ کتنا اضافہ ہوتا ہے۔
نوٹ: گزشتہ کالم میں نواب محمد اسمٰعیل خان کے بڑے صاحبزادے کا نام جی ایم مدنی اور چھوٹے بیٹے کا نام افتخار احمد عدنی تھا، نامعلوم عرفی کیسے چھپ گیا؟
تازہ ترین