اس سلسلے میں اب کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ جس طرح غیرآئینی اور غیر قانونی طورپر پورے جبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ کو مکمل طورپر ویران یا بنجر کیاجارہاہے۔اس وجہ سے اس وقت سارا سندھ متحدہوکر ان خطرناک منصوبوں کیخلاف ایک تاریخی جدوجہد شروع کرچکاہے۔ سندھ کے لوگ اس سے پہلے بھی اس قسم کے رویوں کیخلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں مگر اس وقت جوتحریک شروع کی گئی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس وقت اس تحریک میں ہرکلاس کے لوگ بڑے جوش وجذبے کیساتھ شریک ہیں ان میں سیاستدان ،وکیل ، مزدور، ہاری بھی ہیں تو طالب علم بھی شامل ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس تحریک میں ہر قسم کے سیاستدان چاہے وہ ترقی پسند ہوں، قوم پرست یا مذہبی جماعتیں سب اکٹھے ہوچکے ہیں۔مختصراََ سارا سندھ اکھٹا ہوگیا ہے۔ آخر اس گمبھیر صورتحال میں سارا سندھ اکٹھاکیوں نہ ہو؟۔ابھی تو ساری کینال تعمیر بھی نہیں ہوئیں اس کے باوجود ابھی سے سندھ کے چپے چپے میں افسوسناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس وجہ سے اگر صوبہ کھڑا نہ ہوا تو کیاہوگا۔اس سلسلے میں پورے سندھ میں ابھی سے پانی نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کے مختلف علاقوں کے بارے میں جو اطلاعات آرہی ہیں ، میں یہاں فی الحال ایک ،دو علاقوں کی صورتحال کے بارے میں ذکر کررہا ہوں۔ اطلاعات کے مطابق انڈس ڈیلٹا 92فی صد تباہ ہوچکا ہے اور اسکے 17میں سے 15کریکر مکمل طورپر ختم ہوچکے ہیں۔ ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ آنے سے معاشی بدحالی کاشکار ہوکر مچھیرے ان علاقوں سے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس سارے علاقے کا زیرزمین پانی نمکین ہوگیا ہے اورجنگلات‘انسان اور مال مویشی وغیرہ شدید متاثرہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں مزید اطلاعات کے مطابق ضلع ٹھٹھہ میں 70فیصد پانی کی کمی ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں ٹھٹھہ ضلع کی 2لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہوگئی ہے۔پانی کی اتنی شدید کمی اورکوٹری بیراج میں پانی کی مسلسل بندش کی وجہ سے اس پورے علاقے میں جسے ”لاڑپٹ“ کہا جاتا ہے، پانی کی کمی بہت سنگین ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹے بڑے علاقوں ناری چیچ ،ساکرو،کھانٹی، نصیر ،بگھار، 103کینال ،گھار مسان بشمول دوسری کینالوں اور نہروں میں بھی ریت اڑرہی ہے اس کے علاوہ ان اطلاعات کے مطابق پانی کی اتنی بڑی قلت کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر اگائی گئی فصل سوکھ رہی ہے۔ ڈیلٹا میں پانی نہ آنے کی وجہ سے 52دیہات تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ کیٹی بندر، گھوڑا باڑی اور ساکرو میں 2لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہوگئی ہے۔ جس کے نتیجے میں پورے علاقے میں قحط جیسی صورتحال ہے۔ اس مرحلے میں خاص طورپر اس ایشو پر مشہور قوم پرست رہنما اور سائیں جی ایم سید کے لاڈلے پوتے سید زین شاہ کے ایک انتہائی اہم بیان کاحوالہ دیناچاہتاہوں جس کے تحت نئی بنائی جانے والی 6کینالوں میں سے خاص طورپر چولستان (پنجاب) میں تعمیر کی جانے والی”چولستان کینال“ کے بارے میں اہم انکشافات سے پہلے میں سندھ کے کچھ انتہائی اہم علاقوں کےسمندر بردہونے کے خطرے کا ذکر کروںگا۔ تقریباً6/ 5سال قبل ملکی اورغیرملکی آبی ماہرین نے امکان ظاہر کیاتھا کہ دریائے سندھ سے سمندر میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ غالباً 2050ءتک سارا کراچی شہر سمندر برد ہوجائے۔ دریائے سندھ پر آنکھیں بند کرکے کینال اور ڈیمز بنانے والوں کو کبھی اس بات کااحساس نہیں ہوا کہ ایسے کرنے سے سندھ اوراس کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کیانقصان ہو سکتا ہے۔ مچھلی کی ایک قسم پلاہوتی ہے پلا بھی سندھ کی ایک قسم کی شناخت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں جب کچھ ملکی اورغیرملکی دوست میرے گاؤں آئے تو میں نے ان کو پلا مچھلی کھلائی۔پلاکھاکر وہ بہت خوش ہوئے۔ اسکے بعد یہ لوگ جب بھی میرے گاؤں آتے تھے تو کہتے تھے کہ اگر پلا نہیں کھلا ئی تو پھر ہم آپ کے ساتھ کھانا نہیں کھائیںگے۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ پلا مچھلی کی پیداوار کیسے ہوتی ہے جب دریائے سندھ کا پانی سمندر میں داخل ہوتاتھا تو پلے کے اجزاءپیدا ہوجاتے تھے۔یہ اجزاءبجائے سمندر میں جانے کے دریائے سندھ میںالٹا تیرتے اور تیرتے ہوئے پلامچھلی میں تبدیل ہوجاتے تھے۔ جب یہ پلا مچھلی سکھر بیراج پر پہنچتی تو اس کی جسامت کافی بڑی ہوچکی ہوتی ۔پھر وہاں مچھیرے ان کو دریا سے نکال کر مارکیٹ میں فروخت کرتے تھے۔