(گزشتہ سے پیوستہ)
آج پاکستان کے دو حساس ترین صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور یہ صورتحال کم و بیش چالیس سال سے ہے کبھی شدت کم ہو جاتی ہے کبھی دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، دونوں کی نوبت مختلف ہی سہی مگر نشانہ دونوں ہی جگہ یا تو قانون نافذ کرنے والے ہیں یا عام آدمی، سیاسی ومذہبی اکابرین۔ کئی آپریشن کے باوجود آخر کیا وجہ ہے ہم اس کا مستقل حل نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے سیاسی پہلو بھی ہیں اور انتظامی بھی۔ آخر 2014کا نیشنل ایکشن پلان آگے جا کر سیاسی ایکشن پلان میں کیوں تبدیل ہو گیا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں اور ٹیچرز کی شہادتوں کے بعد اس عزم کا کیا بنا کہ ملک کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے اور پھر ہماری ہی قید سے اس کا ماسٹر مائنڈ فرار ہو جاتا ہے اور ہم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ امریکہ کی طرح دنیا بھر میں پیچھا نہیں کرتے۔
گزشتہ کالم میر حاصل بزنجو کی سینٹ میں آخری تقریر پر ختم کیا تھا۔ تقریر کیا بس نام نہاد جمہوریت اور بلوچستان کا نوحہ تھا۔ وہ اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینٹ کی سیٹ نہ جیت سکا اور جناب صادق سنجرانی چیئرمین ہو گئے۔ ہمارے ریاستی بیانیہ کا نقص اور اصل خامی ہی یہ ہے کہ من پسند افراد کو اہم ترین پوزیشن پر بٹھا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوبے کا احساس محرومی کم ہو جائیگا۔ نااہل اور غیر نمائندہ لوگوں کو کوٹہ کی بنیاد پرلا کر بٹھائیں گے تو معاملات حل ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہو جائیں گے۔
2014 کے نیشنل ایکشن پلان کو دیکھ لیں اور اس سے پہلے ہر آپریشن کے وقت یہ طے کیا جاتا ہے کہ پورے ملک سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا جائے گا اور آپریشن تمام تر سیاسی مصلحت سے بالا تر ہو گا اور ہم یہی دونوں کام نہ کر سکے۔ سندھ میں اگر یہ سیاسی مصلحتیں آڑے نہ آتیں تو شاید کراچی میں 1992کے بعد کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہوتی مثلاً نہ 72مچھلیاں پکڑ سکے دیہی سندھ سے اور شہری سندھ میں ایم کیو ایم کے اندر کریمنلز اور دہشت گردی میں ملوث لوگوں کے خلاف آپریشن کر کے خاتمہ کیا جاتا، ہم نے پہلے اس کے مقابلے میں دوسروں کو مسلح کیا مقابلے کیلئے اور آخر میں جماعت کو ہی ختم کر ڈالا۔
آج بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے کیسے نکلا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی جدوجہد کو ہی ہوتا ہے اب اگر سیاسی عمل کے نام پر غیر نمائندہ لوگوں کو عوام کے منتخب نمائندے کے طور پر مسلط کیا جائے گا تو نہ عوامی تائید حاصل ہو گی اور نہ ہی مسئلے کا حل نکلے گا۔ بلوچستان کی صورتحال کی ذمہ دار سیاسی قوتیں بھی ہیں اور غیر سیاسی فیصلے بھی۔ صوبہ کے سیاستدان یا حکمران اس حد تک تو پوری طرح ذمہ دار ہیں کہ پچھلی تین چار دہائیوں میں جو اربوں روپے بلوچستان پیکیج یا ترقیاتی فنڈز کے نام پر آئے وہ یا تو بیورو کریٹس کے گھروں سے برآمد ہوئے یا لاپتہ ہو گئے اور کوئی حساب لینے والا بھی نہیں ہے۔
دوسرا اہم ترین مسئلہ امن و امان کا ہے آج ہم جعفر ایکسپریس کے واقعہ تک پہنچے کیسے۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس میں جو بھی ملوث ہے اسکو سزا ملنی چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس، جس کو عملاً فرنٹ لائن فورس ہونا چاہئے، کی عمل داری ہی کوئٹہ سے آگے ختم ہو جاتی ہے ’’لیویز‘‘ کے نظام کو ختم کر کے پولیس کا دائرہ پورے بلوچستان تک بڑھایا جائے۔ اس معاملے میں اگر مگر سے باہر نکلیں اور پولیس آرڈر 2002 یا اس سے کوئی بہتر نظام لے کر آئیں۔ تیسرا معاملہ لاپتہ افراد کا ہے آخر یہ بلوچستان کی سیاست کا بیانیہ کیسے بنا اگر صرف حال میں ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی پریس کانفرنس کا ہی جائزہ لیں تو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر 8ہزار سے زائد کیس کا مسئلہ بقول ان کے حل کر لیا گیا ہے اور ڈھائی ہزار سے زائد لاپتہ افراد کے معاملے کو دیکھا جا رہا ہے لاپتہ افراد کمیشن بھی قائم ہے تو یہ بات تو ثابت ہے کہ معاملات اتنے بھی آسان نہیں جتنا تاثر بنایا گیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم یہ بات یا فیصلہ کرتے ہوئے پھر اگر مگر کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر بلوچستان کو گیس کی رائلٹی مکمل طور پر کیوں نہیں ملتی۔ اگر دوسرے معاملات پر انکے تحفظات ہیں تو وہ دور کیوں نہیں کیے جاتے مگر یہ سب نمائندہ حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بات بلوچستان کی ہو یا کے پی کے کی مسائل کا حل آج بھی سیاسی ہے اور اسکے ذریعہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے کسی کو غدار یا محب وطن کہنے سے نہیں۔ آخر الذوالفقار جیسی تنظیمیں جو طیارہ ہائی جیکنگ سے لیکر مخالفین کو ہلاک کرنے جیسے واقعات میں ملوث ہونے کے باوجود سیاسی عمل سے ہی ختم کی گئیں۔ سیاسی عمل سے تو مشرقی پاکستان بھی الگ نہ ہوتا مگر ہم نے آخری راستہ سیاسی نہیں بلکہ فوجی آپریشن سےنکالنے کی کوشش کی۔
آج طالبان ہمارے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں مگر وہ پیداوار تو ہماری ہی ہیں۔ خود ایم کیو ایم کی مثال سامنے ہے پھر سیاسی مقصد کیلئے ٹی ایل پی کھڑی کی گئی اور اب ریاست خود سب سے پریشان ہے۔ ہماری غلطیوں کی طویل فہرست ہے مگر آگے بڑھنے کا راستہ غلطیوں سے سیکھنا، جس کیلئے سب سے پہلے یہ غداری کی سند دینے سے باہر نکلیں ورنہ تاریخ میں تو کس کس کو غدار نہیں کہا گیا اور کون محب وطن تھا۔ دہشت گردی ایک ناسور ہے جو تیزی سے پھیلتے ہوئے اب معاشرے کیلئے کینسر بن چکا ہے۔ ہم نے 2014 میں نیشنل ایکشن پلان میں طے کیا تھا کہ ملک کو اسلحہ سے پاک کیا جائے گا شاید یہ عمل اب ناممکن ہے تو دوسرا آپشن انتہا پسندی کا خاتمہ ایک بہتر فلاحی ریاستی بیانیہ سے ممکن ہے۔ کے پی کے اور سابقہ فاٹا کے معاملات جڑے ہیں پاک افغان تعلقات سے۔ اچھی بات ہے پاک افغان بارڈر کو کھولنا جو ممکن ہوا مشترکہ جرگہ سے، نظر صرف دہشت گرد کا رروائی پر رکتی ہے۔ بدقسمتی سے جو فیصلے 2014میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہوئے تھے ان پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔ جو اتفاق رائے APS کے واقعہ کے بعد ہوا تھا وہ جعفر ایکسپریس کے واقعہ کے بعد نہیں ہوا۔ ہمیں کیوں کسی حادثے کا انتظار رہتا ہے۔ ’اتفاق رائے‘ کیلئے کبھی امن کے موقع پر بھی تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو سکتا ہے جس کا ایجنڈا ہو امن کیلئے جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ 1947سے ہم فارم 47تک آ گئے ہیں۔ اب تو 2025ہے۔ ایک مربوط اور شفاف سیاسی عمل سے ہی دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ غداری اور محب وطن کی سند دینے سے نہیں۔