مَیں کچھ ایسا جذباتی بھی نہیں، کسی بھی معاملےمیں، ہر زاویے سے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرتا ہوں، مگر اُس لمحےتنہائی اور اکیلا پن مجھ پرغالب آگیا تھا۔ مَیں پچھلے تین سالوں میں یہاں اندرونِ سندھ کے لق و دق علاقے کی گرم ہوا سے اُڑتی مٹی، ٹنڈ منڈ، روکھے درختوں اورجابجا لُو کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی، ہریالی سے عاری کانٹے دار جھاڑیوں کی آنکھوں کو تھکا دینے والی یک سانیت کا عادی ہوچلا ہوں۔
مگراُس دن اٹھائیسویں روزے کی دوپہر، فیلڈ سے واپسی پرپیاس کی شدت سےبےحال، کمپنی سےملی رہائش کےوسیع کچےصحن میں درخت کےنیچےپڑی کھری چارپائی ہی پرڈھےگیا تھا۔ دوسرے شہروں سے آئے زیادہ تر ساتھی عید منانے اپنے گھروں کو روانہ ہوچُکے تھے۔ اِکّا دُکّا قریبی علاقوں کے رہنے والے بھی رختِ سفر باندھ رہے تھے، مگر مَیں اپنے دل کو پہلے ہی تسلی دے چُکا تھا کہ صرف ایک ہفتے کے لیے اتنی دور پنجاب جانے کا کیا فائدہ، بڑی عید پر زیادہ دن کی چُھٹی لے کر چلا جاؤں گا۔
مگر…اب عصر ہوتے ہوتے مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ قدموں تلے خشک بھوری زمین، سرکے اوپر سرمئی بےکیف آسمان اور اِن دونوں کے بیچوں بیچ تنِ تنہا مَیں۔ وقت جیسے رینگ رینگ کر گزر رہا تھا۔ یہ وہ پراسرار ہمہ تن گوش لمحہ تھا، جب درخت کی ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتی خاکستری چڑیوں نے اپنے چہچہے سے گہرا سکوت بےدار کردیا تھا۔ اِس خاموشی سے مجھے ہول آنے لگے، جس نے مجھےجلد ہی تھکا مارا۔ لمبے ہوتے گہرے سایوں نے میرے فیصلے کو متزلزل کردیا۔
دل میں پیاروں سے ملنے کی ہُوک اٹھی اورلاہور کے سرسبز نظاروں، پھول پودوں کی مخصوص مہک میرے دماغ پر چڑھ گئی۔ یوں مَیں نے اچانک اپنے گھرجانے کا فیصلہ کر لیا۔حساب کتاب لگایا کہ اگر مَیں 29 رمضان کو صُبح یہاں سےنکلوں، تو ساڑھے چار پانچ گھنٹے میں آسانی سے کراچی پہنچ جاؤں گا۔ آن لائن لاہور کی فلائٹ تلاش کی، تو صرف ایک سیٹ نو بجے والی مل رہی تھی، جس کے لیے مجھے حد سے حد شام سات بجے تک ائیرپورٹ پہنچنا تھا۔ پھر مَیں آرام سے رات تک امّاں، ابا کے پاس پہنچ جاتا۔
جہاز کا آن لائن ٹکٹ خرید کر مَیں نے کراچی جانےکےلیےآفس میں گاڑی اور ڈرائیور کی بات کی، تو جواب ملا کہ عید کی وجہ سے کوئی موجود نہیں۔ اگر مَیں پہلے اطلاع کردیتا تووہ انتظام کرکےرکھتے۔ خیر، یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ بس پرکراچی جانےکا دوسرا طریقہ توموجود ہی تھا۔اگلی صُبح کچھ ضروری کام نمٹاتے نمٹاتے دس بجے نکل سکا۔ سواریوں کی تعداد پوری کرنے کے چکر میں سوا گھنٹہ انتظار کے بعد بس چلی، جو اب مختلف جگہوں پر رُکتی رکاتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ مَیں بھی مطمئن تھا کہ وقت سے پہلے ائیرپورٹ پہنچ جاؤں گا۔
ابھی آدھاراستہ ہی طے ہوا تھا کہ ہچکولے کھاتی، چوں چاں کرتی، باوا آدم کے زمانے کی بس، ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر باقاعدہ ایک طرف کو ہونے لگی۔ ٹائی راڈ ٹوٹ گیا تھا۔ شُکر ہے، کسی حادثے سے بچ گئےتھے۔ اندازہ لگا کر کہ یہ مسئلہ اتنی جلدی حل ہونے والا نہیں، میرا انسانی دماغ فوراً کسی متبادل کے متعلق سوچنے لگا۔ پون گھنٹے کی خواری کے بعد اللہ اللہ کرکے دوسری بس میں سوار ہوکر ایک دفعہ پھرکراچی کی جانب گام زن ہوا، تو بھی دل کو تسلی تھی کہ وقت پر پہنچ جاؤں گا۔ ابھی تو ڈھائی بجے ہیں۔
قریباً ڈھائی تین گھنٹے کا سفر باقی تھا، مگر نہ صرف سفر باقی تھا، میرا امتحان بھی باقی تھا۔ بلکہ شاید ابھی تو آغاز ہوا تھا۔ مَیں انجام سے بےخبر، خُود کو پُرسکون رکھنے کے لیے نشست پر سر ٹکائے، آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ روزوں کی تھکن اور صُبح سے خجل خوار ہونے کے بعد، گرمی کے باوجود فوراً ہی نیند آگئی۔
’’جوس… ٹھنڈا جوس‘‘ کی آواز جانےعالمِ خواب میں سُنی یا حقیقت میں۔ بس کے دروازے میں کھڑابچّہ چِلّارہا تھا۔ مَیں فوری فیصلہ نہ کرپایا۔ دو چار منٹ میں حواس بحال ہوئے تو جیسے ایک کے بعد ایک ہاتھوں کے طوطے اُڑنے لگے۔ پانچ بج چُکے تھے اور بس ٹول پلازا کے قریب ٹریفک جام میں پھنسی کھڑی تھی۔ مسافروں کی آوازیں بھنبھناہٹ کی طرح کانوں میں گُھس رہی تھیں، وہ اندازے لگا رہے تھے کہ عید کی وجہ سے رَش ہے یا آگے کوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔
کوئی دُور کی کوڑی لایا کہ آگے دھرنا ہے، تو کوئی قطعیت سے کسی نامعلوم وی آئی پی کو گالیاں دینے لگا کہ اُس کی وجہ سے سڑک بند ہے۔ کسی نے خبردی کہ آگے سڑک بن رہی ہے اور دو طرفہ ٹریفک ایک ہی سڑک پر چلنے کے سبب ٹریفک جام ہے۔ مَیں نے گھبراہٹ میں بس سے اُتر کر دیکھا، تو بلامبالغہ سیکڑوں گاڑیاں ایک کے پیچھے ایک اُترتے سورج کی روشنی کومنعکس کرتی، نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔
مجھے تو بخدا دن میں تارےنظرآنےلگے۔ مَیں اندازہ نہیں لگاپا رہا تھا کہ جام کتنی دیرمیں ختم ہوگا۔ کوئی ایسی صُورت بھی نہ تھی کہ کسی موٹرسائیکل والےسےلفٹ لےکر شہر پہنچ جاتا۔ صبر کے سوا کیا، کیا جا سکتا تھا۔ بس دھیرے دھیرے تھوڑی آگے بڑھتی، تواُمید بندھ جاتی، رُکتی تومایوسی ہونے لگتی۔ اِسی کشمکش میں سوا چھے ہوگئے۔ باقی مسافروں کو تو افطار کی فکر ستا رہی تھی اور مَیں اِس ادھیڑبن میں تھا کہ کسی طرح سات بجے تک ائیرپورٹ پہنچ جاؤں۔ پونے سات کے قریب بس شہرمیں اپنے اسٹاپ پر پہنچی تو مَیں سب سے پہلے اپنا بیگ سنبھالےباہر کُودا۔
اِسی تگ ودو میں تھا کہ کوئی رکشہ، ٹیکسی ملے تو ائیرپورٹ پہنچوں، مگر افطارکا وقت ہوجانےکےسبب کوئی سواری نہیں مل پارہی تھی۔ مجھے راستوں کی کچھ خبر تھی نہ علاقوں کا پتا۔ موبائل ہاتھ میں پکڑے، کوئی رائیڈ بُک کرنے کےچکرمیں تھا کہ وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ ایک موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے مجھے گھیر لیا۔ میرا موبائل، بٹوا اور بیگ بزورِ پستول عیدی میں وصول کر کے لمحوں میں غائب ہوگئے۔ میرے چیخنے چِلّانے پہ کچھ لوگ میرے اردگرد جمع ہو کر مجھے تسلی دینے لگے۔
وہ کیا کہہ رہے تھے، میری سمجھ میں کچھ نہ آسکا۔ میرے اعصاب جواب دے چُکے تھے۔ دل کی دھڑکن بےقابو تھی۔ آخر مَیں چھبیس سال کا ایک نوآموز لڑکا ہی تو تھا، جسے پہلی دفعہ ایسی صورتِ حال سے واسطہ پڑا تھا۔ پورے رستے تو پریشانی کی وجہ سے فشارِ خون بلند تھا، مگر اب اچانک بلڈپریشر لو ہو گیا اور شدید کپکپی لگ گئی۔ ایک آدمی نے مجھے پکڑ کر سڑک کنارے بٹھایا، کسی مہربان نے افطار کےواسطے دو کھجوریں اور پانی کی بوتل مہیا کی، وہ کھاپی کر کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آئی۔
اب میرے پاس کسی سے رابطہ کرنے کےلیےاُس کا نمبر تھا، نہ ہی دوسری فلائٹ لینےکا سوال کہ پہلی ہی اتنی مشکل سے اور بہت منہگی ملی تھی۔ شُکر کہ مَیں نےکچھ روپے، اے ٹی ایم اور شناختی کارڈ اپنی جیبوں والی بنیان میں رکھ چھوڑے تھے، جو میرے دوستوں نے ازراہِ مذاق نوکری ملنے کی خوشی میں تحفتاًدی تھی۔ مجھےسڑک سے گزرتے ہر راہ گیرسےخوف آرہا تھا، ایسے میں ایک صاحب نے میری بہت مدد کی۔ مجھے اپنی بائیک پر قریبی ہوٹل چھوڑا اوراپنا نمبر دیا کہ کوئی مسئلہ ہوتوبتا دینا۔
اتفاقاً استقبالیے پہ موجود مینجر میرا ہم نام نکلا، جس کی وجہ سے فوراً ہی بےتکلفی ہوگئی۔ میری کہانی سُن کر اُس نے ہمّت دلائی کہ ’’یہ سب تو یہاں معمول کی بات ہے۔ آپ سُکون کریں اور زیادہ سوچیں نہیں۔‘‘وہ کافی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا کہ میری طبیعت بہل جائے۔ مَیں ذہنی و جسمانی طور پر بہت تھک چُکا تھا۔ دوسرےایک ہی دن میں اتنی آفتیں ایک ساتھ دیکھ لینے سے ڈربھی گیا تھا کہ اب اور نہ جانے کیا ہو۔
کمرے میں کھانا لانے والے ویٹر نے عید کا چاند ہونے کی خوش خبری سُنائی، تو مَیں دُکھی دل کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد، لمبی تان کر سو گیا۔ اگلے روز صُبح جلد ہی آنکھ کُھل گئی، مگر مَیں بستر پر پڑا رہا۔ جب میرے ہم نام مینجر نے دروازہ بجایا کہ ’’سر! تیار ہو جائیں، آدھے گھنٹے تک عید کی نماز پڑھنے چلتے ہیں۔‘‘ تو نہ چاہتے ہوئے بھی غسل کرکے پہنے ہوئے کپڑے دوبارہ پہن کر نمازِ عید کے لیے مسجد میں پہنچ گئے۔
وہاں بچّے، بڑے سب نئے کپڑوں میں ملبوس خوشی خوشی نماز کے لیے صفیں بنا رہے تھے۔ نماز کے بعد نمازی آپس میں گلے ملنے لگے، تو اچانک سامنے سے میری کمپنی کے کراچی آفس کے انچارج حامد صاحب آتے نظرآئے۔ اُن سے بس واجبی ہی سی واقفیت تھی، مگر اُس لمحے انہیں دیکھ کر دل کو جو سُکون اور راحت نصیب ہوئی، بیان سے باہر ہے۔ میری داستان سن کر بولے۔ ’’کوئی نہیں یار! ہو جاتا ہے۔ شُکر کرو، تم صحیح سلامت ہو۔
اچھا ہے، اب کے عید کراچی میں کرلو۔ واپس جا کر بھی کیا کروگے؟‘‘ پھر بصد اصرار شام کو مجھے اپنے گھرآنے کی دعوت دی۔ میرے ساتھ موجود میرے ہم نام نے پتا سمجھ کر کہا کہ ’’یہ تو بہت آسان اور قریب ہی ہے۔ مَیں رائیڈر کو سمجھا دوں گا۔‘‘ مَیں نے معذرت کی کہ میرے پاس تو کپڑے بھی نہیں، تو قہقہہ لگا کربولے کہ ’’تمہیں کون سا بردکھاوے میں جانا ہے، میرے پہن لینا۔‘‘
قصّہ مختصر، مَیں بھی سنبھل چُکا تھا۔ اُن اجنبی لوگوں نے جیسے خیال رکھا، تواجنبیت کا احساس ہی نہ رہا۔ سچ کہوں تو اپنی مذہبی اور معاشرتی روایات کی قدر مجھے آج ہوئی تھی کہ یہ ایسا مددگار، ساتھ دینے والا نظام ہے کہ سب کو سمیٹ لیتا ہے۔ شام میں حامد صاحب کے ہاں پہنچا، تو گھر کی خاموشی سے احساس ہوا کہ جلدی آگیا ہوں۔ مگر وہ بہت تپاک سے ملے، بتانے لگے کہ ’’ذرا دیر میں خاندان کے قریبی افراد جمع ہوجائیں گے۔ پھر سب لڑکے مل کر باربی کیو کریں گے اور کھانے کے بعد عیدی بٹے گی۔‘‘ مجھےاپنا ایک جوڑا دیا کہ ’’تم میرے کمرے میں تیارہوجاؤ، اِتنی دیر، مَیں باہر کے انتظامات دیکھتا ہوں۔‘‘
مَیں ابھی تیار ہوکراُن کے کمرے میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ باہر راہ داری میں ہلچل سی محسوس ہوئی۔ کوئی بھاگتا ہواکمرے میں داخل ہوا۔ میری پیٹھ اُس کی طرف تھی۔ اُس نے آتے ہی کمر کو تھپتھپایا اور پیچھے سے منہ کان کے قریب لا کرتقریباً سرگوشی میں مطالبہ کیا کہ ’’آج پانچ ہزارعیدی میں لوں گی۔‘‘ مَیں نےجو اِس تقاضے پر گھبرا کر پیچھے دیکھا، تو حیرانی، خفّت اور پھر شوخی ایک کے بعد ایک اُس چہرے سے گزرتی نظرآئی، جواُس لمحے مجھے ناقابلِ بیان حد تک حسین لگا تھا۔
جس تیزی سے وہ اندر آئی تھی، اُتنی ہی عجلت میں واپس پلٹ گئی۔ بعد میں رسمی تعارف ہوا تو پتا چلاکہ وہ حامد صاحب کی چھوٹی بہن تھی، جویقیناً کپڑوں سے دھوکا کھا کر مجھے حامد صاحب سمجھ بیٹھی تھی۔ اب یہ تو بتانےکی ضرورت نہیں کہ تین چار گھنٹے کی پوری محفل میں ہم دونوں ہی چوری چُھپے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ مجھے اپنی کل کی گزری داستان فرداً فرداً ہرمہمان کو سُنا کر تعزیت وصول کرنا پڑی۔ مگر ایسے خوش گوار پیام دیتی عید کہ مَیں آگے پوری زندگی خوشی خوشی عیدی لُٹانے پر تیار ہوگیا، میری زندگی میں پہلی بار آئی تھی۔