اِن دنوں پاکستان میں زیرِ بحث اہم موضوعات میں سے ایک’’امریکی ویزا‘‘ بھی ہے۔ جس شخص کا دُور دور تک امریکا جانے کا کوئی ارداہ نہیں، وہ بھی پوچھ رہا ہے’’ کیا امریکی ویزے پر پابندی لگنے والی ہے؟‘‘ تقریباً90لاکھ تارکینِ وطن میں سے بمشکل پانچ، سات لاکھ پاکستانی امریکا میں بستے ہیں، لیکن اس موضوع پر جس قدر بحث ہمارے ہاں ہو رہی ہے، اُس سے لگتا ہے کہ یہ روزی روٹی کے بعد سب سے اہم معاملہ یہی ہے۔
بار بار جو سوال سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ’’ پاکستان ویزا پابندی کی کس فہرست میں شامل ہے؟‘‘، پھر یہ سوال بھی کہ’’کیا اب پاکستانی طلبہ یا کام کرنے والے امریکی ویزا حاصل کر سکیں گے؟‘‘یا’’جن افراد کے پاس ویزا یا گرین کارڈ ہے، خواہ وہ امریکا میں ہیں یا پاکستان میں، اب امریکا سے آ،جا سکیں گے؟‘‘ اور ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ’’اب غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں یا اسائیلم سیکرز کا کیا بنے گا؟‘‘ہم تارکینِ وطن سے متعلق مغرب میں پھیلنے والی قوم پرستی کے حوالے سے اِن صفحات پر لکھتے رہے ہیں۔
ویسے ہم کون ہوتے ہیں کہ کسی کو ڈرائیں یا خبردار کریں کہ انہیں غیر ممالک جانے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار اور قانونی تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔تاہم، اب تک تو یہی دیکھنے میں آیا کہ اِن جانے والوں کو اپنے میزبان ممالک کے ویزے، قوانین اور وہاں کے سرد وگرم کا کم ہی علم ہوتا ہے۔ ہم جس بات پر زور دیتے رہے، وہ یہ تھی کہ مغربی ممالک میں تارکینِ وطن کے لیے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے اور وہاں اُنھیں خوش آمدید نہیں کہا جاتا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب وہ یورپ اور امریکا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور وہاں کی معاشی و معاشرتی خامیوں کے ذمّے دار سمجھے جاتے ہیں۔
اِس کا اظہار وہاں کے شہری ووٹ کے ذریعے کر رہے ہیں اور قوم پرست جماعتوں کو اقتدار میں لا رہے ہیں۔ یہ صرف پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر مُلک کے تارکینِ وطن کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اِس سلسلے میں بتاتے چلیں کہ بھارت اور امریکا کی قریبی دوستی ہے، لیکن جن پہلے غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکا سے ڈی پورٹ کیا گیا، وہ200 کے قریب بھارتی تھے۔نیز، ڈی پورٹ کرتے وقت اُن کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ اب ایک ظلم کی داستان کی شکل میں بھارتی اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ معاملہ لوک سبھا میں حکومت کے لیے بھی مشکل بنتا جا رہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ جب مودی نے ٹرمپ سے ملاقات کی، تو اُنہیں بتا دیا گیا کہ 7,50000 بھارتی غیر قانونی تارکینِ وطن کی لسٹ میں شامل ہیں اور اُنہیں ڈی پورٹ کرنے کا خطرہ ہے۔ دوسری طرف دوستی کا یہ حال ہے کہ ٹرمپ نے مودی کو امریکا کا جدید ترین لڑاکا طیارہ ایف- 35دینے کی پیش کش کی، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ بہت ہی unpredictable شخصیت ہیں اور شاید یہی اُن کی وجۂ شہرت بھی بن گئی ہے۔ ویسے مغربی میڈیا، جسے اپنے لبرل ازم پر ناز ہے، سوچتا ہو گا کہ آٹھ سال تک جس شخص کے خلاف لکھتے رہے، اب ہر لمحے اُسی کے ذکر پر مجبور ہیں۔
ٹرمپ کی صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی تقریر کا اہم اور بنیادی نقطہ یہی تھا کہ وہ مُلک سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ہر حال میں نکالیں گے اور اِتنی بڑی تعدا میں کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ اس کے فوراً بعد فالو اَپ کے طور پر پہلے ہی ہفتے متعدد صدارتی حُکم ناموں پر دست خط کیے،( اب بھی کر رہے ہیں )یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان میں سے کئی عدالتوں میں چیلنج ہوجائیں گے اور ان پر حکمِ امتناعی آ جائے گا، لیکن اس کے لیے بھی حکمتِ عملی تیار تھی۔
پہلا حکم نامہ ڈی پورٹیشن کا تھا، پھر جو پہلا نیا محکمہ قائم کیا گیا، وہ بھی اِسی سے متعلق تھا اور اس پر ایک انتہائی سخت گیر حاکم بھی لگا دیا،جس نے عُہدہ سنبھالتے ہی بے دخلی کا کام شروع کردیا۔ یقیناً وہ مشہور خبر آپ کی نظر سے گزری ہوگی، جس میں وینزویلا کے دوسو شہریوں کی امریکا سے بے دخلی کی تفصیلات دی گئی تھیں۔ ہوا یہ کہ ایک دن اُنہیں اچانک پولیس نے گرفتار کیا، طیارے میں بٹھایا اور وینزویلا روانہ کردیا۔ اُن پر الزام تھا کہ یہ بدمعاشوں کے ایک گینگ سے تعلق رکھتے ہیں، جو امریکا میں چوری چکاری، قتل اور منشیات میں ملوّث ہے۔
ان کا وکیل عدالت گیا، تو ایک فیڈرل جج نے(یوں سمجھ لیں، ہائی کورٹ کا جج ) اِسٹے آرڈر دے دیا۔ حکومتی اٹارنی نے کہا’’وہ طیارہ تو پرواز کرچُکا ہے۔‘‘جج نے حکم دیا’’جہاز موڑ کر واپس لایا جائے۔‘‘ اٹارنی نے کہا ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اور کوئی آدھے گھنٹے بعد اطلاع دی کہ وہ تو اپنے مُلک میں اُتر بھی چُکا ہے۔ جج نے برہمی کا اظہار کیا، جس پر ٹرمپ نے معزّز جج سے متعلق جو جو نازیبا کلمات استعمال کیے، وہ ہم یہاں لکھنے سے قاصر ہیں۔
امریکا میں قانون کی عمل داری اور عدالتوں کے احترام کے قصّے پاکستانیوں سے عام طور پر سُنے جاتے ہیں۔ وہ اُن کے نظامِ انصاف کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ قانون کی بالادستی کی مغرب اور امریکا کی مثالیں ہر کتاب میں موجود اور کانفرنس میں دہرائی جاتی ہیں۔ اب وہ فرمائیں کہ یہ سب کیا تھا؟
کیا امریکا میں قانون کی حُکم رانی کے لیے کوئی ریلی نکالیں گے، احتجاج کریں گے؟ کیوں کہ امریکی پاکستانی تو اپنے مُلک کے خلاف اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں۔ اِسی سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ 580000کیوبن شہری، جو امریکا میں کام کرتے تھے، اُنھیں بھی ڈی پورٹ کیا جارہا ہے۔کیوبا، امریکا کے بالکل ساتھ لگا ہوا جزیرہ ہے، جب کہ اس کی اکانومی اور شہریوں کی ملازمت کا دارومدار بڑی حد تک امریکا ہی پر ہے۔
امریکا آزادی اظہارِ رائے کے لیے عالمی شہرت رکھتا ہے اور اِس ضمن میں ’’اسٹیچو آف لبرٹی‘‘ اس کا ٹریڈ مارک ہے، جسے اپنے مُلک میں انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ ہو، وہ امریکا میں پناہ لیتا ہے اور پھر جو چاہے، اپنے مُلک کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے۔ امریکی اُسے بڑی داد دیتے ہیں کہ یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپیئن ہے۔
اب ذرا صُورتِ حال دیکھیے۔ امریکی یونی ورسٹیز اِس آزادی کی نہ صرف منابع ہیں بلکہ یہاں کے طلبہ دنیا بَھر کے معاملات پر احتجاجی مظاہرے بھی کرتے ہیں، جسے ہر ٹی وی نیٹ ورک پر جمہوریت کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر دِکھایا جاتا ہے۔ امریکا کی کولمبیا یونی ورسٹی نہ صرف اپنی تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتی ہے، بلکہ آزادی اظہارِ رائے کے لیے دنیا بَھر میں ایک خاص مقام کی حامل ہے۔
وہاں خلیل نامی ایک فلسطینی طالبِ علم نے گزشتہ سال اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کے قتلِ عام پر ہونے والے ایک مظاہرے میں حصّہ لیا۔وہ وہاں ڈاکٹریٹ کر رہا ہے۔ اُسے’’اینٹی امریکا‘‘ قرار دے کر امریکا سے ڈی پورٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
یونی ورسٹی نے آزادیٔ رائے کا واسطہ دے کر اُس کی طرف داری کی، تو صدر ٹرمپ کے حکم پر کولمبیا یونی ورسٹی کی سالانہ گرانٹ، جو چار سو ملین ڈالرز بنتی ہے، بند کردی گئی، جس پر یونی ورسٹی کو دن میں تارے نظر آگئے۔کہا گیا کہ اگر حماس کی حمایت یا امریکی پالیسی کے خلاف کسی قسم کے مظاہروں میں اس کے طلبہ نے حصّہ لیا، تو یہ امداد ہمیشہ کے لیے بند کردی جائے گی۔
یونی ورسٹی حکّام نے معافی مانگی اور یقین دلایا کہ اب ایسا کبھی نہیں ہوگا، بلکہ اُن طلبہ کی فہرست بھی فراہم کردی، جنہوں نے ایسے مظاہروں میں حصّہ لیا تھا۔ اب خلیل ڈی پورٹ ہونے سے بچنے کے لیے اپنا آخری مقدمہ عدالت میں لڑ رہا ہے۔ کولمبیا یونی ورسٹی جیسی تنبیہہ امریکا کی60 دیگر ممتاز ترین یونی ورسٹیز کو بھی جاری کی گئی ہے۔ اب کوئی طالبِ علم( خاص طور پر اوورسیز طلبہ) کسی ایسی سرگرمی میں حصّہ لے گا، تو وہ ڈی پورٹ ہوگا اور یونی ورسٹی کی امداد بند کردی جائے گی۔ اِسی طرح کے ایک کیس کا سامنا ایک بھارتی نژاد امریکی بھی کر رہا ہے، جو ممتاز ریسرچر مانا جاتا ہے۔
ایک خبر، جو بہت گرم رہی اور یہاں بحث کا موضوع بھی بنی، وہ یہ تھی کہ امریکا میں دو یا تین فہرستیں تیار کی گئی ہیں، جن کے تحت غیر قانونی تارکینِ وطن اور ویزے کے اجرا کی پالیسی وضع کی جا رہی ہے۔ ایک خبر میں ذکر ہے کہ کوئی ریڈ یا اورنج لسٹ بنائی گئی ہے۔ ریڈ لسٹ میں وہ ممالک شامل ہیں، جن کے شہریوں کو کسی بھی صُورت امریکی ویزا نہیں ملے گا اور جنہیں ملا ہے، اُن کے کیسز پر ازسرِ نو غور ہوگا۔ دوسری اورنج لسٹ ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، ان ممالک کے شہریوں پر جزوی قسم کی پابندی لگائی جائے گی۔ پھر ایک اور خبر رائٹر کے حوالے سے دی گئی، جس میں تین فہرستوں کا ذکر ہے۔
پہلی میں وہ ممالک ہیں، جن کے شہریوں کو ویزا یا گرین کارڈ نہیں ملے گا، اس میں ایران، شمالی کوریا اور افغانستان شامل ہیں۔ دوسری لسٹ، جزوی پابندی سے متعلق ہے، جس میں شامل ممالک کے شہریوں کو سیّاحتی یا فیملی ویزے نہیں دیئے جائیں گے۔ تیسری فہرست میں پاکستان اور ترکمانستان شامل ہیں، جنہیں کہا گیا کہ ان کے ایئر پورٹس کا سیکیوریٹی نظام امریکی معیار پر پورا نہیں اُترتا، لہٰذا وہ ساٹھ دن میں نئی مشینز لگوا کر انہیں امریکا سے منظور کروا لیں، وگرنہ ویزے یا آنے جانے پر پابندی ہوگی۔ وائٹ ہاؤس یا کسی امریکی ترجمان نے اِن فہرستوں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی، تاہم ان کا کسی بھی وقت اعلان ہوسکتا ہے یا ترمیم شدہ شکل میں سامنے آسکتی ہیں۔
اگر دیکھا جائے، تو صدر ٹرمپ اپنے اُس منشور پر عمل پیرا ہیں، جس کا اُنہوں نے الیکشن مہم کے دَوران وعدہ کیا تھا۔یہ کام اُنہوں نے پہلے دو ماہ ہی میں کر دِکھایا، لیکن اس سے بھی زیادہ غور طلب بات، خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے یہ ہے کہ اُن کی اِس ڈی پورٹیشن پالیسی کو امریکی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اِکا دُکّا لکھاریوں، اینکرز یا تبصرہ نگاروں کے علاوہ عوام نے اُن کا ساتھ دیا ہے۔
دوسرے الفاظ میں وہ ٹرمپ کی تارکینِ وطن پالیسی کے مکمل حمایت کرتے ہیں، بالکل اُسی طرح جیسے کینیڈا، میکسیکو اور چین پر ٹیکس عاید کرنے کی کرتے ہیں۔ اِسی طرح وہ اُن کے یوکرین اور غزہ سے متعلق اقدامات کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ اِس ضمن میں کوئی بھی قابلِ ذکر عوامی اختلاف کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
ٹرمپ کی پالیسیز سے زیادہ امریکی عوام کے اِس رویّے پر غور کی ضرورت ہے۔امریکا ایک ایسا مُلک ہے، جو تارکینِ وطن سے آباد ہوا اور طاقت حاصل کر کے سُپر طاقت بن گیا، لیکن آج کی امریکی نسل اِس امر پر متفّق نظر آتی ہے کہ اُنھوں نے دنیا کی ٹھیکے داری اور مدد بہت کر لی۔
انسانی حقوق کا تحفّظ، مظلوموں کا ساتھ یا آزادیٔ رائے کی پاس داری اب اُن کا مسئلہ نہیں رہا، وہ صرف اپنی ترقّی اور معیارِ زندگی پر توجّہ دے رہے ہیں۔جسے اپنے آبائی ممالک یا عالمی آزادیٔ رائے یا جدوجہد سے دل چسپی ہے، وہ اپنے مُلک میں رہ کر یہ سب کرے۔ اگر کسی نے اُن کے مُلک کو ڈسٹرب کیا، تو اُس کے لیے ڈی پورٹیشن کی تلوار موجود ہے۔
اب اِس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستانیوں کے لیے امریکی ویزے کی کیا صُورت ہوگی۔ ویسے گزشتہ دنوں بعض واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں، جو خاصے اُمید افزا ہیں۔صدر ٹرمپ نے کانگریس میں سرکاری طور پر سرِعام پاکستان کا شُکریہ ادا کیا، جب اس نے کابل خودکُش حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔
امریکا کے مشیرِ قومی سلامتی نے اِس ضمن میں کہا کہ اِس اقدام سے پاکستان سے بہتر تعلقات قائم ہوں گے۔ نیز، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ذاتی دل چسپی سے ٹرمپ کے دستِ راست، بلکہ اُن کی حکومت کی دوسری سب سے طاقت وَر شخصیت کی کمپنی، اسٹار لنک کو پاکستان میں کام کی اجازت دے دی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے تمام اہم مشیر تاجر ہیں اور پاکستان اگر امریکا سے تعلقات میں اِس نقطے پر اپنے توجّہ مرکوز رکھے، تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہت بہتری کا امکان ہے۔ویسے افغانسان کی موجودہ صُورتِ حال اور ایران سے ٹرمپ کی مذاکرات کی خواہش بھی پاکستان کو امریکا کے لیے اہم بناتی ہے۔
امریکی پاکستانی ہم سے بہتر جانتے ہوں گے کہ امریکا میں روز کس قسم کی خبریں سُننے کو ملتی ہیں یا وہ اِن دنوں کس قسم کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔تاہم، ہم نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے، اُن سے بھی اندازہ ہوجانا چاہیے کہ کسی بھی قسم کی تحریک یا کوئی سرگرمی، جو ٹرمپ حکومت کی نظر میں امریکا کے امن میں خلل ڈالے، ناقابلِ برداشت ہو گی، چاہے ایسے افراد کے ارکانِ کانگریس سے گہرے تعلقات ہی کیوں نہ ہوں۔ علاوہ ازیں، ریڈ اور اورنج لسٹ سے بھی اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ان میں سے کسی کا نفاذ اُن کے رابطے اپنے مُلک اور پیاروں سے کتنے کم زور کردیں گے۔
پاکستانی تارکینِ وطن کی کُل تعداد پانچ سے سات لاکھ ہے، جب کہ امریکا کی آبادی32 کروڑ ہے، جو52 اسٹیٹس میں پھیلی ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے محض دو ماہ میں پاناما سے غزہ، یوکرین سے کینیڈا اور روس سے چین تک، سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ یوکرین جیسے قریبی اتحادی اور یورپ کو بڑی آزمائش سے دوچار کردیا ہے، تو یہ منظر پاکستانیوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے بھی کافی ہونا چاہیے۔