• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناچیز کو پرانے وقتوں کا کہہ لیجئے، آج بھی صبح ہاتھوں میں اخبار کا لمس اچھا لگتا ہے۔ اسی سے میرے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ ماضی میں، ہر طلوع آفتاب کیساتھ اخبار کا مطالعہ لازم تھا ۔ پیش آنیوالے واقعات میں تنوع تھا، انسان نیرنگی روزگار کا مطالعہ کرنا پسند کرتا تھا۔ لیکن افسوس، اسکی جگہ آج خوف نے لے لی ہے۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب اخبارات کسی سانحے یا ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کی کوئی خبر نہ لئے ہوئے ہوں۔ لیکن کیا کیجے، عشروں کی راسخ عادت جان نہیں چھوڑتی۔ آج بھی میرے دن کا آغاز اخبار سے ہوتا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ گزرتے ہوئے ماہ و سال نے بہت کچھ بدل دیا ہے، لیکن آنیوالی تبدیلی بہت دل خوش کن نہیں ۔ یہ ہماری ذہنی حالت کی ایک ادنیٰ سی عکاسی ہے۔ ہمارا ذہن خوف کے پے در پے صدمے برداشت کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سے جائے مفر ممکن نہیں۔ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں مختلف میدانوں میں انسان کامیابی کی منازل طے کررہے ہیں، لیکن ہمارے گردو نواح میں زندگی ابتلا سے بچنے کیلئے ہمہ وقت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ ہم سے کیا بھول ہو گئی؟ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے جہاں زندگی کے جذبے کی جگہ زندگی کی بدشگونی نے لے لی؟ آنکھوں میں خوابوں کے گلاب سجائے آنیوالے کل کی طرف دیکھنے کی بجائے ہمارے ذہن پرمشکلات سے بھرے ایک اور دن کا خوف سوار رہتا ہے ۔

اس حالت کا پریشان کن پہلو نہ صرف ان سفاک عناصر کی موجودگی ہے جو اذیت میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ان گنت شاطر چہرے بھی ہیں جو بظاہر تو ہمارے دوست اوربچاؤ کی اس کوشش میں ہمارے بہی خواہ ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک طرف تو ہم کچھ کی طرف سے پیدا کردہ شیطانی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو دوسری طرف ہم دیگر کی منافقانہ مہربانیوں کی اذیت جھیلتے ہیں۔ ان جکڑنوں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں جنھوں نے ہمیں گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہاتھ پاؤں مارنا بے سود ہے۔ اس طرف جبر کی اذیت ناک سختی ہے، دوسری طرف احسان کا خون آشام قہر ہے ۔ یہ سنڈروم ان معاشروں میں زیادہ توانائی اور تندی سے موجود ہے جو بنیادی طور پر لاقانونیت کی زد میں ہیں، اور جو قانون کی کتاب کی اصل روح کی بجائے مفاد پرست اشرافیہ کی خواہشات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ عزت کیساتھ جینے اور آزادی اور نجات کیلئے انسانی جدوجہد کو متاثر کرنے کی امید کیلئے، جبر کے ہتھکنڈوں سے آزاد ہونا چاہئے۔ سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ ہر قسم کے اذیت رساں کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ کس کیلئے کھڑے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں۔

یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ محکومیت اور مزاحمت کی خواہش سے محروم معاشرہ تنزلی اور گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بات کے کافی اشارے ملتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گہری کھائی میں اترتا جا رہا ہے۔ ہم پر جو آفت آ رہی ہے اس کا نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ ہی اس سے نکلنے کیلئے کسی قابل فہم سطح پر عملی کوشش شروع کرنے کی خواہش ہے۔ خود احتسابی اور ناکامیوں کی وجوہات کا معروضی جائزہ لینے سے غافل زندگی بادل نخواستہ برداشت کیے جانے والے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ عظیم عزائم کے دوہرے عذاب اور خود پرستی کے نہ ختم ہونے والے زعم میں مبتلا انسان بھول جاتا ہے کہ کہاں سے آغاز کرنا ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ دوسرے کنارے تک پہنچنے کیلئے جو راستہ چنا گیا ہے وہ گڑھوں سے بھرا ہوا ہے جو یقیناً ترقی کی ہر جھلک کو دھندلا دیتا ہے۔ خود احتسابی ایک ایسی روشنی ہے جس کا ہماری سوچ کے دریچوں میں مطلق گزر نہیں۔ چنانچہ ہم اپنی ناکامیوں کی افسانوی وضاحتیں تلاش کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ہم عملی منصوبہ بندی سے تہی داماں ہیں۔

لیکن پھر، ان مصائب کا شکار نہ ہونے کی بنیادی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم اپنی ناکامیوں کا الزام ہمیشہ بیرونی قوتوں پر نہیں ڈال سکتے۔ ان کے تدارک کیلئے ہمیں اپنی کوتاہیوں کو اپنے گھر میں دیکھنے، اور ان سوراخوں کو بند کرنے کیلئے بامعنی قدم اٹھانے کا فن سیکھنا چاہئے، وگرنہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوراخ بڑے ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن یہ فن ہم آسانی سے نہیں سیکھ پائیں گے۔ اس کے لیے ہماری سوچ میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہو گی۔ اس کیلئے ہمیں رعونت کے پہاڑ سے نیچے آنا پڑے گا جس پر ہم نے خود کو مورچہ بند کررکھا ہے۔ ہمیں عام انسانوں کا سا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ ہم اس وقت کہاں ہیں اور ایک مخصوص مدت کے بعد ہمیں کہاں ہونا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہمیں ظلم اور جبر کے چنگل سے آزاد ہونے کیلئے، اصلاحی اقدامات کرنےکیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حقوق اور آزادیوں سے محروم ماحول ایک گھٹن کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کی عادت راسخ کرنے کی بجائے ہمیں پرامن مزاحمت کا فن سیکھنا چاہئے تاکہ جبر کرنے والوں کو احساس ہو جائے کہ لوگوں کو اسیر بنائے رکھنا اور انکی سوچ کو پابندسلاسل کرنا کار لاحاصل ہے۔ ان فطری صلاحیتوں سے محروم انسان زوال کا شکار ہوتے چلے جائیں گے ، یہاں تک کہ وہ محض انسان نما ڈھانچے بن جائیں گے ۔ ہم شاید اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اس نہج تک پہنچنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیوں کہ یہ فطرت کا اصول نہیں ہے ۔ یہ زندگی کے تحفے کی بے قدری ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے، اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ زندگی ایک انمول خزانہ ہے۔ اسے اپنی تمام فطری خوبصورتی کے ساتھ جینا چاہیے۔ اور اس کی بنیادی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم کیسے سوچتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔آئیے زیست کے خوف سے نجات پائیں ۔ آیئے زندگی کے خزانے، حقوق اور آزادیوں کی واضح خوشبو کو محفوظ کرنے اور اسے فروغ دینے کیلئے مل کر اس کا جشن منائیں ۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین