• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس وقت حکمرانوں نے نئی نہریں بنانے کے اعلانات کیے ہیں، اس وقت پورا ملک خاص طور پر صوبہ سندھ تاریخ کی بدترین خشک سالی سے دوچار ہے۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے 24 مارچ کو جاری کردہ خشک سالی کے ایک تازہ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم ستمبر 2024 سے 21 مارچ 2025 کے درمیان ملک میں مجموعی طور پر 40 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں، جبکہ سندھ میں 62 فیصد، بلوچستان میں 52 فیصد، اور پنجاب میں 38 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔ سندھ کے 15 اضلاع، بلوچستان کے 11 اور پنجاب کے 3 اضلاع خشک سالی کا شکار بتائے گئے ہیں۔ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلسل بارشوں کی کمی کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں Flash Drought (ایسی خشک سالی جس میں بارشیں کم ہونے کے ساتھ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہو اور مٹی سے نمی خشک ہو جائے) کا خدشہ ہے۔

24 مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم عملی طور پر ایک ہفتے سے خالی ہو چکا ہے، اور اس میں صرف 16 ہزار کیوسک پانی آ رہا ہے۔ 1991 کے پانی کے معاہدے کے مطابق اس دن سکھر بیراج پر بلوچستان کا حصہ ملا کر تقریباً 29 ہزار کیوسک پانی نہروں میں بہنا چاہیے، لیکن وہاں صرف 10 ہزار کیوسک پانی بہہ رہا ہے۔ مجموعی طور پر مارچ کے تیسرے عشرے میں سندھ کو 36720 کیوسک پانی درکار ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس آدھے سے بھی کم یعنی 18 ہزار کیوسک پانی مل رہا ہے۔گزشتہ اکتوبر سے ملک میں قحط سالی جاری ہے، کیونکہ فروری تک بارش اور برف باری نہ ہونے کے برابر تھی۔ نتیجے میں تربیلا اور چشمہ ڈیم خالی ہو چکے ہیں، اور منگلا ڈیم میں بھی بہت کم پانی بچا ہے۔ یہ صورتحال آنے والے برسوں میں پانی کے بحران کا قدرتی انتباہ ہے۔

22 مارچ کو پانی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، دنیا کے 25 ممالک میں پانی کے وسائل بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے چار ارب انسان پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔

سندھ طاس (انڈس بیسن) سے چار ممالک (پاکستان 61 فیصد، بھارت 29 فیصد اور باقی چین اور افغانستان) کو پانی ملتا ہے۔ ان ممالک کے دریا گلیشیرز پگھلنے سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ سندھ طاس کو پانی دینے والے گلیشیرز تقریباً 21 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ میں 70 فیصد سے زیادہ بہاؤ گلیشیرز اور موسمی برف کے پگھلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے دریائی علاقے کو پانی فراہم کرنے والے گلیشیرز 15 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تربیلا پر آنے والے پانی کا 85 فیصد برف پگھلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے یہ گلیشیرز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پگھلنے لگیں گے، کچھ ابتدائی بڑے بہاؤ کے بعد دریاؤں میں پانی کم ہونے لگے گا۔ آبی سائنس کے ماہرین کئی تحقیقی رپورٹس میں یہ انتباہ کرتےچلے آ رہے ہیں کہ دریائے سندھ میں آنے والی دہائیوں میں پانی کم ہوتا رہے گا۔

اگست 2024 میں انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ اگر گلیشیرز اسی رفتار سے پگھلتے رہے تو 2050 تک دریائے سندھ ایک موسمی دریا میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ 1859 میں اپر باری دوآب کینال راوی ندی کے مادھوپور ہیڈ ورکس پر بنا کر انڈس ریور سسٹم پر جدید آبپاشی نظام کا آغاز کیا گیا۔ 1849 میں سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کرنے والے انگریزوں نے یہ نہر سکھوں کی ہاری ہوئی افواج سے محنت مزدوری کروانے کے لیے کھدوائی تاکہ وہ انگریزوں کیلئے سر درد بننے کی بجائے زراعت میں مصروف ہو کر گزر بسر کریں۔

بعد ازاں 1905 میں ٹرپل کینال پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت جہلم، چناب اور راوی ندیوں کا پانی تین لنک نہروں (اپر جہلم کینال، اپر چناب کینال اور لوئر باری دوآب کینال) کے ذریعے اکٹھا کیا گیا۔ 1915 میں یہ نہریں مکمل کی گئیں۔ اس وقت بمبئی پریزیڈنسی کے انتظام کے تحت سندھ حکومت نے اعتراض کیا کہ پنجاب میں ایسی اسکیمیں شروع کرنے سے سندھ کی اتھل نہروں کا پانی کم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک سندھ میں جدید آبپاشی بیراج نظام شروع نہیں ہوا تھا اور سندھ میں اتھل نہروں پر آباد کاری ہوتی تھی۔

اس کے بعد (1921-1933) ستلج ویلی پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ یہ بہت بڑی اسکیم تھی، جس کے تحت چار بیراج فیروز پور، سلیمانکی، اسلام اور پنجند تعمیر کیے گئے۔ ان بیراجوں سے 11 نہریں نکالی گئیں۔ 1880 سے 1947 کے درمیان پنجاب میں نو کینال کالونیز تعمیر کرکے لاکھوں ایکڑ زمین آباد کی گئی۔ اس وقت بھی سندھ نے شکایت کی تھی کہ اتنی بڑی مقدار میں پانی تقسیم کرنے سے دریائے سندھ کی طرف آنے والا بہاؤ کم ہو جائے گا۔ حویلی پروجیکٹ 1939 میں مکمل ہوا۔ اس اسکیم کے تحت جہلم اور چناب کا پانی راوی تک پہنچا کر15لاکھ ایکڑ زمین آباد کی گئی۔ اس کے بعد 1960 میں سندھ طاس معاہدے کے تحت جب پاکستان نے تین مشرقی دریا بھارت کے حوالے کئےتو دریائےسندھ پرآٹھ لنک نہروں کا جال بچھایا گیا۔ اس کے نتیجے میں دریائے سندھ کے نظام سے پانی کی بہت بڑی مقدار پنجاب میں استعمال ہونے لگی۔اب تک مجموعی طور پر دریائے سندھ کے نظام پر 23 بیراج/ہیڈ ورکس، 12 لنک نہریں اور 45 بڑی نہریں بن چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انڈس ڈیلٹا میں جانے والا 150 سے 200 ملین ایکڑ فٹ پانی کم ہو کر آٹھ سے دس ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے۔ 1885 سے 1947 تک پنجاب میں نہروں پر آباد ہونے والی زمین 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ تک پہنچ گئی تھی۔ یہ زمین اس عرصے کے دوران بنائی گئی ٹو کینال کالونیز کے تحت آباد کی گئی۔یہ کینال کالونیاں دو دریاؤں کے درمیان دوآبوں کی اجاڑ زمین کو آباد کرنے کے لیے بنائی گئیں۔ یوں پنجاب کی زرعی ترقی کیلئےپچھلی ڈیڑھ صدی سے دریائے سندھ کا پانی استعمال ہوتا رہا ہے۔

تازہ ترین