دنیا کے دو ارب سے زیادہ مسلمان ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں روزوں، نمازوں، صدقات خیرات اور دیگر خصوصی عبادتوں کی سعادت ملنے پر آج سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عیدالفطر کی شکل میں اپنے رب کے شکر کے ساتھ اظہار مسرت کررہے ہیں ۔اسلامی تعلیمات کی رو سے سال کی دو عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کیلئے تہوار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں تہوار کا تصور بے لگام جشن شاد مانی ، میلوں ٹھیلوں، کھیل تماشوں، ناؤ نوش اور فضول مشاغل سے عبارت ہے لیکن اسلامی عیدوں کے تہوار پوری طرح بامقصد ہیں۔ نماز عید الفطر کی دو رکعتیں اس بات کے شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہیں کہ روزوں کی شکل میں ایسی عبادت کی توفیق ملی جس کا صلہ ارشاد نبویؐ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ ایک مہینے کے روزوں کی اس سالانہ مشق کا اصل مقصد قرآن کی رو سے اہل ایمان کو تقویٰ کی تربیت دینا ہے۔ لفظ تقویٰ کی نہایت جامع تشریح حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کانٹوں بھرا راستہ لباس کو الجھنے سے بچاتے ہوئے طے کرنے کی مثال سے کی ہے۔ دنیا کی زندگی ناجائز خواہشات اور ترغیبات میںگھری ہوئی ہے۔ اس راستے پراپنے دامن کو رب کی نافرمانی اور بدکرداری کی خاردار جھاڑیوں سے بچا کر چلنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہی تقویٰ ہے۔رمضان میں ایک مسلمان اپنے رب کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے دن بھر کھانے پینے سے کسی ظاہری دباؤ کے بغیر خود کو روک کر جس تقویٰ کی تربیت حاصل کرتا ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی میں اس تربیت کا اظہار ہو ۔ وہ تقویٰ کے ایک مہینے کی اس مشق کے بعد بھی ہر لمحے خود کو بدعنوانی اور خیانت کی ہر شکل سے بچا کر رکھنے کیلئے کوشاں رہے۔ اس کے سماجی روابط اور دنیاوی معاملات بھی ہر قسم کی بددیانتی سے پاک رہیں۔ بالفاظ دیگر بحیثیت مسلمان ہماری پوری زندگی قرآنی اخلاق و کردار میں ڈھل جائے۔ لیکن ہماری عملی کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے۔ہمارے کاروباری طبقے ذخیرہ اندوزی اور ناجائزمنافع خوری کے سارے ریکارڈ رمضان میں توڑ دیتے ہیں۔ سرکاری اہلکار عید کی تیاریوں کے لیے رشوت کے ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس لوگوں کو چالان کا خوف دلا کر زیادہ سے زیادہ ناجائز کمائی کی جدوجہد میں مصروف نظر آتی ہے۔ دفاتر میں روزے کے بہانے دیر سے آمد، جلد واپسی اور ذمے داریوں کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی کا رویہ حق سمجھ کر اپنایا جاتا ہے۔ جبکہ اگر تیس دن کے روزوں کی اصل غایت یعنی تقویٰ کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو اعلیٰ اسلامی اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈھال لیں تو یہ روش ہماری اخروی فلاح و نجات ہی کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اس کا نتیجہ لازمی طور پر دنیاوی ترقی اور عزت و سرفرازی کی صورت میں بھی برآمد ہوگا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں یہی اخلاق و کردار تھا جس نے انہیں ایک ہزار سال تک اپنے وقت کی سپر پاور بنائے رکھا ، اور آج اس کردار سے محرومی ہی اقوام عالم کی صفوں میں ہماری بے وقعتی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ عالمی اداروں میں ہماری بے اثری کا تماشا ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہماری اس کیفیت کا بدترین مظاہرہ ڈیڑھ سال سے جاری غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کی وحشیانہ اسرائیلی کارروائیوں پر دو ارب مسلمانوں کی ستاون ریاستوں پر طاری افسوسناک بے عملی کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان حالات میں ہمارے لیے عید کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم رمضان کے تیس دنوں کی تربیت کے اصل مقصد کے مطابق ہر قسم کی خیانت و بے ضمیری اوربددیانتی و بدعنوانی سے اپنی زندگیوںکو پاک کریں کہ یہی رویہ ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا ضامن بھی بن سکتا ہے اور دنیا میں بھی عزت و سربلندی کی راہیں کشادہ کرکے ہماری رسمی عیدوں کو حقیقی عید بناسکتا ہے ۔