• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، وزیر داخلہ محسن نقوی سے لاہور میں ہونے والی ملاقاتوں میں عیدالفطر کی مبارکباد کے تبادلے بعد جو موضوع گفتگو کا مرکز رہا وہ امن و امان کی صورتحال بہتربنانے اور دہشت گردی کےسدّباب کا تھا۔ ایسے ماحول میں، کہ دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات بڑھتے نظر آرہے ہیں، ان کے خاتمے کی تدابیر خاص توجہ کی متقاضی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں وزیراعظم نے بلوچستان میں امن کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا جبکہ یہ بات بھی زور دےکر کہی گئی کہ بلوچستان کی ترقی حکومت کی اولین ترجیحات کا حصہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے ملاقات میں میاں شہباز شریف نے معیشت اور امن و امان کی صورتحال سمیت جن اہم امور پر تازہ ترین صورتحال سے آگہی دی ان میں بلوچستان کی کیفیت بھی شامل ہے۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر بڑے بھائی کی حیثیت سے صوبہ پنجاب کے کردار کی اہمیت اجاگر کی اور ہدایت کی کہ بلوچستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی تمام ممکنہ تدابیر بروئے کار لائی جائیں۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے وزیراعظم سے ملاقات میں اپنے صوبے کی تازہ ترین صورتحال سے آگہی دی ۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وفاق بلوچستان کی ترقی کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔ ملاقات میں وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان کے لئے جاری ترقیاتی منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے سوشل میڈیا پر جاری بیان کے بموجب وفاقی حکومت کی اعانت سے چلنے والے منصوبے صوبائی معیشت کی بہتری اور عوامی بہبود کا ذریعہ بنیں گے۔ ایسے وقت میں کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز خوارج کے فتنے سے نمٹنے میں مصروف ہیں، مظاہروں اور دھرنوں کی صورت میں دہشت گردوں کو آسان اہداف ملنے کے خطرات ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)مینگل کے وڈھ سےکوئٹہ تک لانگ مارچ کے دوران دہشت گردوں کو ایسا ایک موقع مل بھی گیا اور لانگ مارچ کے مستونگ کے قریب پہنچنے پر ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ خیریت یہ رہی کہ سردار اختر مینگل اور دیگر شرکاء محفوظ رہے۔ ملک کے حالات متقاضی ہیں کہ حکومتی رویے کے شاکی لوگوں کو ملک دشمن نہ سمجھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے ان کے تحفظات بلاتاخیر دور کئے جائیں۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ جہاں دہشت گردی کے پشت پناہوں کی خوفناک سازشوں کی نشاندہی کا ذریعہ بنا، وہاں ہماری سیکورٹی فورسز کی مستعدی اور پیشہ ورانہ مہارت کا آئینہ دار بھی ہے۔ درپیش صورتحال بہرحال زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت اجاگر کر رہی ہے۔ہمارے فوجی جوان مستعد بھی ہیں اور دفاع وطن کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں ۔ اس منظرنامے میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی منزل کے جلد حصول کیلئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو زیادہ موثر بنانے اور بھرپور نمائندگی کیساتھ اس کا دوبارہ اجلاس بلانے کی تجویز سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے۔ جبکہ 18مارچ کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اظہار خیال کی صورت میں سامنے آنیوالی سخت ریاست (یعنی قوانین پر سختی سے عمل کرنے والی مملکت) کی حکمت عملی ہر کامیاب ریاست کے معمولات کا حصہ ہے۔ ملک عملاً حالت جنگ میں ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ تمام پارٹیاں اور سیاسی رہنما باہمی اختلافات سے بالاہوکر ملکی مفادات کے لئے مل جل کر کام کریں۔ اس وقت کا سب سے بڑا ایجنڈا ملکی سلامتی ہے۔ اس ضمن میں سب کو اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔

تازہ ترین