عطا اللہ تارڑ پاکستان کی سیاست میں ایک نمایاں اور متحرک شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک سیاسی اور قانونی پس منظر رکھنے والے خاندان سے ہے۔ ان کے دادا جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ پاکستان کے سابق صدر رہ چکے ہیں، جو ایک دیانت دار اور ایماندار جج کے طور پر معروف تھے۔ ان کے والد بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے۔عطا تارڑنے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکالت کے میدان میں قدم رکھا۔ بعد ازاں، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور جلد ہی پارٹی میں ایک قانونی ماہر، مضبوط دفاعی حکمت عملی ساز، اور بیباک سیاستدان کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں وہ پارٹی کے سب سے متحرک رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔2018کے عام انتخابات کے بعد، جب مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں گئی تو عطا تارڑ پارٹی کا سب سے مضبوط اور نمایاں چہرہ بن کر ابھرے۔ انہوں نے قانونی محاذ پر ن لیگ کا بھرپور دفاع کیا اور ہر پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی حکومت کے بیانیے کا مدلل جواب دیا۔ اس دوران ن لیگ کے کئی رہنماؤں پر مقدمات بنائے گئے، جن کے خلاف عطا تارڑ نے عدالتوں میں بھرپور قانونی جنگ لڑی اور ہر موقع پر پارٹی کے دفاع میں پیش پیش رہے۔
2021میں عمران خان کی حکومت پوری طاقت سے اپوزیشن یعنی ن لیگ کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے کی مہم پر گامزن تھی جسکے جواب میں لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا گیا ، جس میں عطا تارڑ کو کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ حکومت نے جلسہ روکنےکیلئے پولیس کو متحرک کیا اور کئی رہنماؤں کی گرفتاری کا منصوبہ بنایا گیا۔ عطا تارڑ کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ پولیس انہیں ہر حال میں گرفتار کرنے کیلئے متحرک ہے۔ اس موقع پر انہوں نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک غیر معمولی حکمت عملی اپنائی۔ وہ اپنی شناخت چھپانے کیلئے ایک عام رکشہ لے کر جلسہ گاہ جاپہنچے۔ اس دن وہ نہ سوٹ میں تھے، نہ کوئی پروٹوکول تھا، بلکہ سادہ کپڑوں میں رکشے میں بیٹھ کر عام کارکنوں کی طرح جلسہ گاہ پہنچے اور عین وقت پر اسٹیج پر نمودار ہو کر حکومت کے خلاف ایسی تقریر کی کہ پوری جلسہ گاہ نعروں سے گونج اٹھی۔ یہ منظر دیکھ کر پولیس اہلکار بھی حیران رہ گئے کہ جس شخص کی گرفتاری کیلئےپورے شہر میں ناکے لگا رکھے تھے، وہ سب کو چکمہ دے کر جلسے میں پہنچ گیا۔ بعد میں جب یہ بات میڈیا میں آئی تو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ان پر طنز کیا، مگر ن لیگ کے کارکنوں نے اسے ان کی ذہانت اور حاضر دماغی کی علامت قرار دیا۔
2022میں شہباز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں وزیرِ مملکت برائے داخلہ کا عہدہ دیا گیا، جہاں انہوں نے کئی اہم فیصلوں میں کردار ادا کیا۔ 2024 میں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت بنی تو انہیں وفاقی وزیر اطلاعات بنایا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے حکومت کے فیصلوں کا بھرپور دفاع کیا، میڈیا اور اپوزیشن کے بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جارحانہ حکمت عملی اپنائی اور سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ن لیگ کے بیانیے کو مؤثر انداز میں پیش کیا۔اسلام آباد کے سینئر صحافی طارق عزیز کے مطابق عطا تارڑ کو جہاں مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک اہم مقام حاصل ہے، وہیں وہ اپوزیشن کے نشانے پر بھی رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما ان پر جارحانہ سیاست اور سخت زبان استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ صرف دفاعی بیانیہ پیش کرتے ہیں اور اصلاحات پر کم بات کرتے ہیں۔ ان کے کئی بیانات متنازع بھی رہے ہیں، جسکی وجہ سے انہیں بعض حلقوں میں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کی سیاست کا سفر ابھی جاری ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے سب سے متحرک اور سرگرم رہنماؤں میں شامل ہو چکے ہیں اور مستقبل میں مزید اہم حکومتی عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کی قانونی مہارت، سیاسی بصیرت، اور پارٹی سے غیر مشروط وابستگی انہیں مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا ایک اہم ستون بناتی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ آگے جا کر کون سی بڑی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، مگر ایک بات طے ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں گے، سیاست میں ایک سنسنی خیز اور دلچسپ کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان کی شخصیت، ان کے واقعات، اور ان کی سیاست ہمیشہ خبروں میں رہے گی۔ ن لیگ کی قیادت اور حامیوں کیلئے وہ ایک قابل قدر رہنما بن چکے ہیں۔