• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ کا 140 مربع میل کا علاقہ پہلے جو پہلے ہی کھلی جیل تھا، اب مقتل بن چکا ہے۔قبل ازیں یہاں پر 23 لاکھ زندہ و جاوید انسان بستے تھے، اب ان میں سے بھاری اکثریت لاشوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک ایسا شہر جو کہ جیتے جاگتے انسانوں کی بستی تھا، اب اس میں یا تو صرف بچے رہ گئے ہیں یا پھر کچھ عورتیں جو اسرائیل کی بربریت اور انکی بے رحمانہ بمباری سے معجزانہ طور پر بچ گئے ہیں۔ 23لاکھ آبادی پر مشتمل یہ علاقہ فلک بوس عمارتوں پر مشتمل تھا، اب یہ محض ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔جہاں ہنستے کھیلتے بچوں کی کلکاریوں سے اس کی گلیاں مہکتی تھیں اب وہاں پر ان بچوں کی قبریں بن چکی ہیں۔ فلسطین کی قتل گاہ میں مارے جانیوالے بے گناہ مسلمان ایک طویل عرصہ 57اسلامی ممالک کی طرف دیکھتے رہے کہ شاید کوئی ان کی مدد کو آگے بڑھے، وہ اسلامی کانفرنس تنظیم کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے کہ شاید وہ تنظیم ان کی آواز بنے، تیل اور گیس جیسے وسائل سے مالا مال ممالک ان کی امیدوں کے مرکز رہے کہ شاید وہ ان کا ہاتھ پکڑیں۔ اسرائیل کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کرنیوالے اور فضاؤں میں میزائل چلانے والے ممالک بھی ان کی امیدوں کا مرکز رہے لیکن نہ تو 41 ملکوں پر مشتمل فوج ان کی مدد کو آئی،نہ ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا ترانہ الاپنے والے عملی قدم اٹھا سکے اور اب ایک ایسا المیہ جنم لے چکا ہے جو اس سے پہلے انسانی تاریخ نے نہیں دیکھا تھا۔معدنی وسائل سے مالا مال عرب ممالک مذمتی قراردادیں پاس کرتے رہے، اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے کئی ’’غیر معمولی اجلاس‘‘ اسرائیل کو اپنے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے۔ اور اب فلسطین میں قتل ہوتے بچوں عورتوں جوانوں اور بزرگوں کی تصویریں پوری دنیا کے ضمیر کو کچوکے لگا رہی ہیں۔ جو بچ چکے ہیں انکی آہیں عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔ مذمت افسوس اور تعزیت کے سارے الفاظ اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ایک ایسا المیہ وجود میں ا ٓچکا ہے جو اپنے دامن میں ایسی خونچکاں داستان لئے ہوئے ہے جس کو نہ تو سنا جا سکتا ہے اور نہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کی ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنیوالے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر فلسطینی بچوں اور عورتوں کی دل خراش تصویریں نیندیں اڑانے والی ہیں۔معصوم بچوں کی لاشیں کچھ نیم مردہ نوجوان سب انسانیت کو پکار رہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کا خون بہہ رہا ہے لیکن انسانیت کے ماتھے پر بھی پسینہ پھوٹ چکا ہے۔ اس وقت پورا فلسطین لہو لہان ہے، پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے،ملبے پر بچے کچھے بے بس مسلمانوں کا بسیرا ہے، ہر طرف تباہی کا راج ہے،خاک اور خون کی بو ہے، بارود کا دھواں ہے، مسجدیں شہید ہیں، حدیث تو یہ ہے'' کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے'' کیا اہل فلسطین امت مسلمہ کے جسد کا حصہ نہیں؟ کیا اسلامی ممالک کے ضمیر ابھی تک سوئے ہوئے ہیں؟ غزہ کی نسل کشی کے سامنے بند کیوں نہیں باندھا جا رہا، اسرائیل اب تک جنگ بندی کا مطالبہ تسلیم کیوں نہیں کر رہا اور 57 اسلامی ممالک کی طاقت کے سامنے اسرائیل ایک خونخوار بھیڑیے کی طرح کیوں دندنا رہا ہے؟ یہ جنگ اب تک 40ہزار سے زائد فلسطینیوں کو نگل چکی ہے۔13 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں، تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے سے 20ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں، 75ہزار سے زائد فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا ہے، گرفتاریوں کا کوئی شمار نہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ساری عمر معذوری کا سامنا کرینگے، ہزاروں خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، بہت سے گھرانے سرے سے ختم ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے عزیز وں کو دفنا نہیں سکے۔ یہ ایسا نوحہ ہے کہ جو شاید کبھی ختم نہ ہو، انسانیت کا ضمیر اس پر ہمیشہ بے چین رہیگا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پستی اور ذلت ہمیشہ مسلمانوں کا مقدر رہیگی؟ کیا اسی طرح مسلمان بے بسی کی علامت بنے رہیں گے؟ کیا اسی طرح مسلمانوں کا خون ارزاں رہے گا؟ کیا اسی طرح مظاہرے اور زبانی تقریروں سے ہی اپنے دل کو بہلایا جاتا رہے گا؟میں سمجھتا ہوں کہ اگر امت مسلمہ کی عظمت رفتہ واپس لانی ہے تو پھر ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو جلسوں اور احتجاجوں کا ایندھن بننے کے بجائے درسگاہوں لائبریریوں اور لیبارٹریوں کا رخ کرنا ہوگا، مسلسل کئی سو سال ہمیں سر جھکا کر علم کے حصول کی طرف توجہ دینی ہوگی، نئی ایجادات کی طرف راغب ہونا پڑیگا، اپنی لائبریریاں آباد کرنی پڑیں گی، اپنی نسل کو علم کی طرف لگانا پڑیگا، نئی ایجادات کی طرف آنا پڑے گا، علم میں کمال اور مہارت حاصل کرنی پڑیگی، علم ہی وہ واحد طاقت ہے جس سے جارحیت کا راستہ روکا جا سکتا ہے، علم ہی وہ اسلحہ ہے جو دشمن کے دانت کھٹے کر سکتا ہے، جدید ٹیکنالوجی وہ ہتھیار ہے جو آج طاقت کا ذریعہ ہے اور اگر ہم جدید علوم کے حصول کی طرف راغب نہیں ہونگے تو اگلی کئی صدیاں یہی ذلت ہمارا مقدر رہیگی۔امت مسلمہ کے حکمرانوں اور دانشوروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ وہ کس طرح اپنی نوجوان نسل کو لائبریریوں، لیبارٹریوں اور درسگاہوں کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو علمی ٹارگٹ متعین کرنا ہونگے اور جنکے حصول کے لیے تمام ریاستی وسائل صرف کرنے پڑیں گے تب کچھ صدیوں کے بعد امت مسلمہ سر اٹھا کر چلنے کی قابل ہو سکے گی۔

تازہ ترین