جوں جوں افغانستان میں سوویت مداخلت بڑھتی جا رہی تھی کارٹر انتظامیہ کی تشویش میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ امریکی خفیہ دستاویزات جو ایک مخصوص مدت کے بعد پبلک کی جاتی ہیں، ان کے مطالعہ سے بہت سے وہ حقائق بھی کھل کر سامنے آجاتے ہیں جو واقعات رو پذیر ہونے کے مواقع پر مخفی رہے ہوتے ہیں۔ ان رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ 24 دسمبر 1979کو جب سوویت فورسز افغانستان میں داخل ہوگئیں اور تین روز بعد حفیظ اللہ امین کابل میں قتل کر دیےگئے تب کارٹر انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پورا سینئریو ہی بدل گیا ہے یوں معاملہ فارن آفس سے سی آئی اے یا ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ سے ہوتے ہوئے بڑی حد تک وائیٹ ہاؤس کے ایجنڈے پر آگیا۔ پریزیڈنٹ کارٹر نے یہ ذمہ داری اپنے معاون، قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی کو سونپ دی، سوویت مداخلت کے فوری بعد صدر کارٹر نے جنرل ضیا کو خط لکھا جس میں پاکستان اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے تشویش ہی نہیں امریکی عزائم کا اظہار بھی تھا اور فوری طور پر پاکستان کے لیے 400ملین امداد کا اعلان بھی، یوں جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کارٹر کا عزم خاصا متزلزل ہوگئے، انہوں نے پاکستان کوسمنگٹن امینڈمنٹ سے استثنٰی دیتے ہوئے یہ لکھنا ضروری سمجھا کہ میں پھر بھی ایٹمی عدم پھیلاؤ کی یقین دہانی کا کچھ ذکر اپنی ترجیح سمجھتا ہوں گو اس سے زیادہ نہیں جو ہم پہلے کر چکے ہیں دوسری طرف اس شدید ترین امریکی تشویش پر انڈیا نے امریکی احساسات کو قطعی درخور اعتنا نہ سمجھا مرارجی ڈیسائی کی حکومت جانے کے بعد اندرا گاندھی دوبارہ برسراقتدار آئیں تو انھوں نے سوویت مداخلت کی رسمی مذمت سے بھی انکار کر دیا ایسے میں جمی کارٹر کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہ تھا کہ وہ پاکستان کے ناز اٹھاتے۔صدر جمی کارٹر کی حکمرانی کا دورانیہ اگرچہ محض چار برسوں تک محدود ہے لیکن اس مختصر دورانیے کے عالمی حالات میں جو بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں اور ان سے نمٹنے کے لیے پریزیڈنٹ کارٹر نے جونپی تلی پالیسیاں اختیار کیں وہ 8 برس کیا، بعد کے تمام ادوار پر بھی حاوی ہیں 1979 کا سال بیسویں صدی کے اہم ترین برسوں میں سے ایک تھا جس میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد نہ صرف مڈل ایسٹ کے دیرینہ ایشو کو ایک نئی جہت ملی بلکہ آیت اللہ خمینی کا امریکا مخالف انقلاب بھی برپا ہوا، افغانستان میں سوویت فورسز کی جارحیت جیسا بڑا سانحہ بھی پیش آیا جس پر کارٹر دور کے امریکی رد عمل سے عالمی سیاست میں ایک نوع کا ایسا بھونچال آگیا جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے بھی تعلقات کے نئے مدو جزر نے جنم لیا بالخصوص 5 جولائی 1977کو سابق پاکستانی پرائم منسٹر بھٹو کے اقتدارکو زوال آ گیااور پھر 1979 میں انھیں پھانسی دے دی گئی جس کا الزام بھٹو کی پارٹی نے پروپیگنڈا ٹول کے طور پر کارٹر انتظامیہ پر عائد کیا اس سے بیشتر خود بھٹو نے نہ صرف اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کر 28اپریل 1977کو کارٹر انتظامیہ پر الزامات کی بھرمار کر دی تھی اوریہاں تک کہا تھا کہ امریکی سفید ہاتھی میری حکومت ختم کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے میرے خلاف عوامی تحریک کو منظم کرنے کے لیے بھاری تعداد میں ڈالرز بھجوائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح عوامی جلسوں میں بھی انہوں نے اس نوع کا پروپیگنڈا جاری رکھا اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ سائرس وینس کا کوئی نام نہاد خط ہوا میں لہراتے ہوئے اسے اپنے خلاف سازش کے ثبوت کی حیثیت سے پیش کیا اور کسنجر کے حوالے سے کہا کہ کسنجر نے انہیں برملا کہا ہے کہ ’’ہم تمہیں نشان عبرت بنا دیں گے‘‘ وغیرہ۔ اس طرح اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے خلاف چلنے والے مقدمہ قتل کے دوران بھی انہوں نے سنگین فوجداری الزامات میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے اصل ایشو پر توجہ دینے کی بجائے سیاسی مقاصد کے تحت امریکی سازشی نظریے کو خوب اچھالا حالانکہ اس دور کی خفیہ دستاویزات افشا ہونے پر، ان کا پوری باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہوئے، واضح ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کارٹر انتظامیہ کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی اپنی جگہ مگر اس نوع کا کوئی ایک ثبوت بھی کسی جگہ نہیں ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ خود بھٹو کی بیٹی بے نظیر نے اپنی سیاست کے آغاز سے لے کر اختتام تک کسی ایسے پروپیگنڈے کی کبھی حمایت نہیں کی بلکہ ان کی پارٹی کے لوگ جب کارٹر انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے امریکی پرچم جلایاکرتے تھے تو وہ سختی کے ساتھ ایسے نعروں اور اقدامات کو روکا کرتیں اور اپنی سخت خفگی و ناپسندیدگی کا اظہار کیا کرتیں۔(جاری ہے)