• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب نے ’زندگی میں مرگ کا کھٹکا‘ لگا ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ خواہی کھٹکے کو اندیشہ جانو، خواہی اس کواڑ کی چٹخنی جسے کسی بھی لمحے فنا کے اندھیرے میں کھل جانا ہے۔ فنا کے بے کنار خلا میں سود و زیاں اور صحیح یا غلط کے سب سوال ختم ہو جاتے ہیں۔ وجود کا واقعہ نامعلوم رفتار سے فراموشی کی پاتال میں اتر جاتا ہے۔ محض یہ نکتہ باقی رہتا ہے کہ ہونے سے نا ہونے کے سفر میں وجود نے کیا نشان چھوڑا؟ اپنا نقش چھوڑنے کا اعزاز صرف تین گروہوں کو نصیب ہوتا ہے۔ (1) تحقیق، دریافت اور ایجاد کی مدد سے زندگی میں سہولت کی جستجو کرنے والے سائنسدان۔ (2) رنگ ، آواز، لفظ جیسے فنون لطیفہ کے وسیلے سے زندگی کا امکان وسیع کرنے والے تخلیق کار۔ (3) عوام کے لئے انصاف، امن اور خوشی کی خواہش میں طاقت اور جبر کی فصیلوں پر دلیل سے حملہ آور ہونے والے سیاسی کارکن اور رہنما۔ یہی اقلیت قوم کی معاشی اور تمدنی ترقی ممکن بناتی ہے۔

ہماری دھرتی میں ایسے بہترین انسانوں کی کمی نہیں رہی لیکن ہم نے اجتماعی بندوبست مرتب کرنے میں ایسی غلطیاں کی ہیں کہ یہ تینوں گروہ تعداد اور انفرادی صلاحیت میں غیرموثر ہو گئے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ کہ ہم نے وسائل کی تقسیم پر اختیار اور ترجیحات کی فیصلہ سازی پیوستہ مفادات کے ہاتھوں یرغمال رکھ دی ہے۔ قوم کو آگے لے جانے والا گروہ تاریخی اور سیاسی شعور سے مملو ہوتا ہے۔ ہم نے روز اول سے سیاسی شعور کی بے توقیری کی ہے اور اجتماعی بہتری کی بجائے ذاتی مفادات کے اسیر عناصر کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ اس کوتاہ نظری میں ہم نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ ہمارا ملک دو لخت ہوا ۔ ہمارے بہترین سیاسی رہنما قتل ہوئے۔ ہمارے لعل و گوہر سیاسی کارکن مٹی کی محبت میں بدترین صعوبتوں کا شکار ہوئے ۔ ہماری معیشت دریوزہ گری کا استعارہ بنی۔ عوام کا معیار زندگی بری طرح مجروح ہوا۔ ہم بے معنی جنگ و جدل میں وسائل ضائع کرتے رہے۔ ہم نے عوام کی حاکمیت کا راستہ روکنے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کی۔ دنیا میں ہمارے ملک کا وقار زمیں بوس ہوا۔ ہم آمریت اور نیم جمہوری تجربات کی کشمکش میں مسلسل بے یقینی کا شکار رہے۔ 1951ءکی مردم شماری میں ملک کی آبادی تین کروڑ 37لاکھ تھی اور شرح خواندگی تقریباً 11فیصد تھی۔ آج ملک کی آبادی 25کروڑ اور شرح خواندگی 62فیصد ہے۔ گویا پون صدی قبل تین کروڑ بالغ شہری ناخواندہ تھے۔ آج دس کروڑ بالغ شہری ناخواندہ ہیں۔ سکول جانے کی عمر کے پونے تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ کہ غیر معیاری تعلیم پانے والے تخلیقی اور پیداواری صلاحیت سے محروم شہری اجتماعی معاملات کی بجائے محض ذاتی ترقی پر آنکھ رکھتے ہیں۔ یہ محض غفلت یا کوتاہی نہیں۔ یہ سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی پالیسی ہے جس کا مقصد عوام کو تاریخی اور سیاسی شعور سے محروم کر کے بے دست و پا کرنا ہے۔ ہم نے سات دہائیوں سے سیاست اور سیاست دان کو بے توقیر کیا ہے۔صحیح اور غلط کے معیارات تلپٹ کیے ہیں۔ قومی مفاد کے نام پر جھوٹ کے کاروبار کی مدد سے قوم کا تنقیدی شعور تباہ کیا ہے۔

15 دسمبر 2024کو صدیق الفاروق انتقال کر گئے۔ہم نے تعزیت کے دو رسمی جملوں میں صدیق الفاروق کو ٹھیک اسی طرح اجتماعی حافظے میں دفن کر دیا جس طرح قوم قسور گردیزی، محمود قصوری، پروفیسر غفور احمد، حسن ناصر، خواجہ رفیق، نذیر عباسی اور حمید بلوچ کو بھول چکی ہے۔ ہم میں سے کتنوں کو یاد ہے کہ ربع صدی قبل بندوق کے بل پر پرویز مشرف قوم پر مسلط ہوئے تو اس کھلی آمریت کی مزاحمت کرنے والے مٹھی بھر افراد میں مشاہد اللہ خان، صدیق الفاروق اور پرویز رشید جیسے چند بہادر کھڑے ہوئے۔ باقی قوم تو نئے مسیحا سے ’روشن خیالی‘ کی توقعات باندھے بیٹھی تھی۔ اگست 1980میں فوجی عدالت کو نذیر عباسی کی عقوبت خانے میں موت سے آگاہ کیا گیا تھا تو اس کے ردعمل میں فہمیدہ ریاض نے ایک زوردار نظم لکھی تھی۔ صدیق الفاروق ایسے خوش نصیب نہیں تھے۔ عدالت میں صدیق الفاروق کی حراست کے بارے میں سوال کیا گیا تو حکومتی اہلکارنے کہا کہ ’جناب ہم انہیں گرفتار کر کے بھول گئے تھے‘۔ اس سے بڑا المیہ یہ کہ نذیر عباسی کی شہادت پر ’پتھر توڑنے والے دل والوں‘ کو سلام پیش کرنے والی فہمیدہ ریاض مشرف آمریت کی حامی ہو چکی تھیں۔ یہ کیسا سیاسی شعور ہے جو آمریت کی مزاحمت میں ذاتی ترجیحات کی درجہ بندی روا رکھتا ہے۔ صدیق الفاروق کا زخم ہرا تھا کہ تاج حیدر بھی رخصت ہو گئے۔ عوامی مفاد، تعلیم، انسانی حقوق اور غریب طبقات کے مفادات کی ساٹھ برس تک آواز اٹھانے والے تاج حیدر کے اوجھل ہونے پر قوم میں ملال کا وہ مظاہرہ بھی نظر نہیں آیا جو فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے والوں پر نچھاور کیا جاتا ہے۔ بھاری چٹانوں تلے اگنے والے پودوں کی پرداخت ٹیڑھی میڑھی ہوتی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں پر آمریت اور فسطائی رجحانات سے مسلسل زور آزمائی کرتے ہوئے یہی المیہ گزرا ہے۔ حقیقی سیاسی کارکن اور رہنما ذہنی، مالی اور سیاسی دیانت کے باعث ان مراحل میں کارآمد نہیں رہتے جہاں اندھیرے میں نیم مجرمانہ سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اے این پی سے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کو ایک ہی روز خارج کیا جاتا ہے۔ٹیلی ویژن اسکرین پر ان سیاسی اداکاروں کو بار بار رونمائی ملتی ہے جنہیں قوم پر مسلط کرنا مقصود ہوتا ہے۔ پنجاب میں گورنرکا تقرر ہو تو قمر زمان کائرہ یا چوہدری منظور حسین کے نام بھول جاتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایسی شخصیت وفاق کی نمائندہ ہے جسے پندرہ کروڑ کے صوبے میں شاید سو لوگ بھی نہیں جانتے۔ رضا ربانی سینٹ کے لیے نامزد نہیں ہوتے اور انکے ہم عمر سیاسی رہنما سربراہ مملکت کے منصب پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور اب فرحت اللہ بابرپراختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ فرحت اللہ بابر نصف صدی تک اپنی سیاست کے جمہوری تشخص کا تاوان ادا کر رہے ہیں۔

تازہ ترین