• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چکراتے، بل کھاتے بھنور کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے/ باز اپنے مالک کو نہیں سن پا رہا/ چیزیں بکھر جائیں تو مرکز قائم نہیں رہ سکتا / دنیا میں ہر طرف انتشار برپا ہے / ہر طرف لہو رنگ لہریں بپھری ہوئی ہیں / معصومیت کہیں ڈوب چکی ہے۔

ہر دور میں دنیا اپنی بدصورتی پرکشش نقابوں کے پیچھے چھپانے کی عادی رہی ہے، لیکن جلد یا بدیر وہ وقت آ جاتا ہے جب یہ پردہ پوشی ممکن نہیں رہتی۔ سیاہ کاریاں داغ دھبوں کی صورت نمودار ہونے لگتی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جب قسمت کرتوتوں کو ظاہر کر دیتی ہے تو داغ دھبے چھپائے نہیں چھپتے۔ ماضی کی سیاہ کاریوں سے مفر ممکن نہیں۔ آگے کی مسافت ہمیشہ دشوار گزار، اور اصلاح کی راہ گزر طویل ہوتی ہے۔ ہم سے پہلے والے لوگ بھی ہماری طرح ان مشکلات کا سامنا کر چکے ہیں، اور غالباً وہ جو ہمارے بعد آئیں گے، انھیں بھی یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ کیا ہمارے رجحانات سبق آموز نہیں؟ غلطیوں نے ہمیں کوئی سبق نہیں سکھایا؟ ہم ڈگمگاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور پھر اسی گڑھے میں گر جاتے ہیں؟

اگرچہ انفرادی سطح پر ایسا ہونا قابل فہم ہے، لیکن ہماری اجتماعی سوچ اور عمل کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں اس سے مختلف ہونے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم اپنی غلط فہمی اور طاقت کے حصول کے گمراہ کن خبط پر تکیہ کرتے ہوئے اس کھائی سے بچنے کا کوئی عقل مندانہ راستہ تلاش نہیں کرتے۔ جب آخرکار آفت سر پر پڑتی ہے تو ہم مستقبل میں اس سے بچنے کیلئے کوئی سبق نہیں اخذ کرتے بلکہ اسےایسی مصیبت قرار دیتے ہیں جسے لازمی طور پر برداشت کرنا تھا۔ ہم اس کا الزام سابق حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اس دیوانگی کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہے۔ آغاز سے ہی اسے تجربہ گاہ سمجھا جاتا رہا ہے جہاں ترقی کیلئے کوئی جاودوئی دوائی تیار کی جا سکے گی۔ اس عمل میں یہ ملک نہ صرف اپنے بنیادی نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھا، بلکہ اس کی توانائی، جوش اور ہر وہ پہلو بے جان ہو گیا جو اسے آگے بڑھا سکتا تھا۔ اسے کبھی ایک تجربے کی نذر کیا گیا، کبھی دوسرے کی۔

مسئلہ اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اسے آگے بڑھانا اب صرف ایک چیلنج نہیں رہا۔ سب سے پہلے اسے اس دلدل سے نکالنا ہے جس میں یہ پچھلی دہائیوں سے دھنس رہا ہے۔ اس کیلئے ذہنیت اور نقطہ نظر میں انقلابی تبدیلی درکار ہو گی کہ جدید آلات کا استعمال کرتے ہوئے یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جائے۔ تباہی لانے والے تجربات دہرانے سے ترقی نہیں ہو گی۔ ہم ماضی میں یہ سب کچھ دیکھ چکے۔ ہم صرف اس صورت آگے بڑھ پائیں گے جب ایسے تجربات کرنے کے رجحان کو دفن کرتے ہوئے عملیت پسندی اور ترقی پسندی کی طرف بڑھیں اور افرادخود کو عقل کل سمجھنے کے زعم سے باہر آ جائیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہے۔ ضروری ہے کہ ہر کوئی اس کی پاسداری کرے۔ اور یہ آسان نہیں کیونکہ اس میں لوگوں، جو اپنی ذات میں طاقت کے ارتکاز کے عادی ہیں، کو قائل کرنا ہے کہ وہ ذاتی مفاد پر مفاد عامہ کو ترجیح دیں اور ایسا طرز عمل اختیار کریں جس کی بنیاد استدلال، منطق اور عملیت پسندی کے فراہم کردہ واضح رہنما اصولوں پر ہو۔ اس کے بعد ہی چند لوگوں کی جاہ طلبی کی بجائے ریاست اور اس کے تمام لوگوں کے اجتماعی مفاد کو یقینی بنانے والی مضبوط اور پائیدار بنیاد رکھی جا سکے گی۔

ایک بار جب ایسا ہو جائے تو تعمیر نو کا مشکل کام شروع ہو جائے گا۔ پچھلی دہائیوں نے ایک مساوی ریاست کے تصور کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کیا جیسا کہ قائد نے 11اگست 1947کو پہلی دستور ساز اسمبلی کے فلور سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا: ’’اگر آپ اپنا ماضی بدلتے ہیں اور اس جذبے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں کہ آپ میں سے ہر ایک چاہے وہ کسی بھی برادری سے تعلق رکھتا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے ماضی میں آپ کے ساتھ کس طرح کے تعلقات تھے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مساوی حقوق، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس ریاست کا پہلا، دوسرا اور آخری شہری ہے، آپ جو ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔‘‘

یہ وہ بنیادی اصول تھا جسے نئی قائم کردہ ریاست کو فروغ دینا تھا۔ لیکن اس عمل کو سنجیدگی سے شروع کرنے کی بجائے ہم نے ایسے خون آشام مفاد پرست طبقے کو پروان چڑھنے کی اجازت دی جو اس کی رگوں سے تمام خون چوس چکا ہے۔ اس خرابی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ طبقہ ریاست کی اصلاح اور اسے آزادی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کے دوران حاصل کیے گئے مفاد اور نعمتوں کو چھوڑنے کیلئے قطعی طور پر تیار نہیں۔ جب بھی چیلنج کیا جاتا ہے، وہ کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنی روایتی طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔ بات وہیں ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کو ان کے چنگل سے آزاد کرانے کا خواب دیکھنے والوں کو سزا دینے کیلئے وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ وہ جنگ ہے جو اس وقت ہمارے ہاں لڑی جا رہی ہے اور اس کے نتائج پر ملک کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔ جمود کا تحفظ پہلے سے ہی کمزور قومی جسم اور اس کے اثاثوں کو مزید خستہ حال کر دے گا۔ ہم سانس لینے کی مہلت کیلئے اپنے اثاثے گروی رکھ رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس موجود اسٹاک لامحدود نہیں۔ ہم جلد ہی اس نہج پر پہنچ جائیں گے جب ہم اثاثوں اور تصورات سے تہی داماں ہوں گے۔ اس کے بعد نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن والا معاملہ ہو گا۔ فیض صاحب کی بات یاد آ رہی ہے کہ ایک کڑی ٹوٹ گئی ہے اور یہ وقت ماتم کا ہے۔ خستگی کا یہ عالم ہے کہ خدشہ ہے کہ ہم کہیں خوابوں سے محرومی کی اذیت کا شکار نہ ہو جائیں۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین