اس کالم میں،میں نے اس بات کا ذکر کرنا ہے کہ پنجاب میں متعدد کینال اور ڈیم بنانے کی وجہ سے سندھ کے لئے کیا خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ خطرات کا ذکر میں نے پچھلے کالم میں کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان متعدد کینالوں اور ڈیموں کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اتنا کم ہوجاتا ہے کہ دریائے سندھ سے سمندر میں پانی کا بہاؤ بھی بہت کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ایک تو یہ نقصان ہوا ہے کہ پلا مچھلی کی پیداوار برائے نام رہ گئی ہے۔
پلا مچھلی سندھ کی ایک ایسی شناخت ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے‘ ایک بار میرا نیو یارک جانا ہوا جہاں میں ایک دو پاکستانیوں کا مہمان تھا‘ رات گزارنے کے بعد ان دوستوں نے کہا کہ آج ہم امریکہ کی پلا مچھلی خریدنے کے لئے جارہے ہیں‘ کچھ دیر میں وہ پلا خرید کرلائے اور کچن میں پلا مچھلی تلی پھر باہر دسترخوان پر لائے وہاں ہم مل کر پلا کھانے لگے‘ میں نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے دونوں مہمان دوست پلا کھاتے ہوئے میری طرف دیکھ رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ آخر مجھ سے نہیں رہا گیا میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے جس پر دونوں کہنے لگے کہ امریکی پلا لذت میں کیسی ہے‘ لذت نہ ہونے کے برابر تھی مگر میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کی مہربانی کے آپ نے امریکہ کی پلا مچھلی کھلادی‘ اس بات پر دونوں دوست ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ مغل صاحب آپ کیوں نہیں مانتے کہ سندھ کی پلاکے مقابلے میں امریکی پلا کس حد تک بے لذت ہے؟ میں خاموش رہا‘ اس پر دونوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ مغل صاحب ہم نے یہ پلا اس وجہ سے کھلائی ہے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ سندھ کی پلا مچھلی کے مقابلے میں امریکہ کی پلا مچھلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
واقعی وہ بات تو صحیح کہہ رہے تھے مگر میں پھر بھی خاموش رہا کیونکہ اب دریائے سندھ سے سمندر میں پانی نہ بہنے سے سندھ کی پلا مچھلی بھی اپنی لذت کھو چکی ہے مگر افسوسناک بات کچھ اور بھی ہے جب دریائے سندھ سے سمندر میں پانی جاتا تھا تو یہ پانی آگے جا کر سمندر کے کچھ مقامات پر مچھلیوں کی پیداوار کا باعث بنتا تھا‘ سمندر میں یہ مچھلی اتنی پیدا ہوتی تھی کہ اکثر مچھیرے سمندر کی طرف آگئے اور ان مچھلیوں کو پکڑ کر بیوپاریوں کو فروخت کرنے لگے اس لیے کہ یہ مچھلی بیرون ملک برآمد کی جاتی تھی جس کے عوض پاکستان ہر سال بھاری زرمبادلہ کماتا تھا مگر اب دریا سے سمندر میں پانی کے نہ آنے کی وجہ سے یہ مچھلی بھی ناپید ہو گئی ہے اور ملک اس زرمبادلہ سے محروم ہو گیا ہے۔
اس مرحلے پر میں اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرنا چاہوں گا کہ کوٹری بیراج جو پاکستان کا ایک انتہائی اہم بیراج ہے، جس کے ذریعے دریائے سندھ سے ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی ارسال کیا جاتا ہے یہ مقصد مناسب طریقے سے حاصل کرنے کے لئے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) قائم کی گئی۔ ارسا میں اور معاملات کو طے کرنے کے ساتھ اس بات پر خاص طور پر بحث ہوئی کہ دریائے سندھ سے ڈاؤن اسٹریم کوٹری کتنا پانی ارسال کیا جائے۔ بحث میں سمندر کی طرف سے زمین کو گرفت میں لینے کی کوشش کو روکنے کے لئے کوٹری کے نیچے دریائے سندھ سے سمندر کی طرف ایک مناسب حد تک پانی ارسال کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس سلسلے میں ایک خاص حد تک اتفاق ہوتا ہوا نظر آیا کہ اس سلسلے میں ایک حد مقرر کرنی پڑے گی‘ اس مرحلے پر سندھ نے رائے دی کہ اس کی زیادہ سے زیادہ حد 10 ایم اے ایف ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز آئیں جن کے تحت 10 ایم اے ایف والی تجویز کی حمایت کی گئی لہٰذا فی الحال طے ہوا کہ اس سلسلے میں مختلف اسٹڈیز کرکے ایک فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ مسئلہ اب یہیں رکا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ دریائے سندھ سے کوٹری بیراج کے نیچے کتنا پانی چھوڑا جائے‘ اس وقت اگر کوئی بھی جامشورو سے کراچی جانے کے لئے راستے میں پل پر کھڑا ہوکر دیکھتا ہے کہ کوٹری بیراج سے نیچے کتنا پانی جارہا ہے تو وہ یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوجائے گا کہ دوسری طرف تو نہر سوکھی ہوئی ہے اور پانی کا کوئی قطرہ بھی نہیں۔
اس صورتحال پر ملکی اور بین الاقوامی ماہرین یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ اگر دریائے سندھ سے کوٹری بیراج کے نیچے پانی کا بہاؤ نہ بڑھایا گیا تو سمندر کا پانی زمین پر اتنا چڑھ آئے گا کہ تقریباً 2050 ء تک سارا کراچی سمندر کے پیٹ میں ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کو کیوں اس بات کا احساس نہیں کہ کراچی نہ فقط ملک کا سب سے بڑا شہر بلکہ ملک کی سب سے بڑی سمندری بندرگاہ بھی ہے کیا اس بات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔