پاکستان میں ٹی وی چینل شروع ہوئے 12 سال ہونے والے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مارچ 2002ء میں جنرل مشرف اور ISI کی وجہ سے میں نے دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر کی پوسٹ سے استعفیٰ دیا تھا تو پاکستان میں یہ کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ سوائے سرکاری چینل PTV کے اور کوئی TV نہیں تھا مگر کیونکہ ایک فوجی آمر کے خلاف ایک صحافی نے یہ کہہ کر نوکری چھوڑ دی تھی کہ دبائو قبول نہیں عالمی میڈیا میں یہ ایک بڑی خبر تھی۔ نوکری چھوڑ کر میں گھر واپس ورجینیا آگیا تو کئی بڑے TV چینل مجھے انٹرویو کرنے آئے اور سب سے بڑے چینل CNN نے پورے 30 منٹ کا ایک پروگرام کیا جس میں مجھے لیا گیا اور میرے ادارے جنگ گروپ سے شاہ رخ حسن صاحب کو لیا گیا کئی دوسرے صحافتی ادارے جیسے CPJ یعنی نیویارک کی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، کچھ پروفیسروں اور کئی لوگوں سے بھی بات کی گئی۔ جنرل مشرف کی جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک اخباری کانفرنس کا وہ کلپ بھی دکھایا گیا جس میں ایک جاپانی صحافی نے ان سے میرے استعفے کے بارے میں پوچھا تو وہ لاجواب نظر آئے۔ مگر یہ سب ایک تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں ہوا کسی نے کسی کو گالی نہیں دی اور ہر ایک نے اپنا مؤقف دیا اور انتظارکیا کہ جب دوسرے لوگ بول لیں تو جواب دیا جائے۔ استعفیٰ بھی ہوگیا اور احتجاج بھی اور معاملات آگے بڑھ گئے۔جب سےپاکستان میں درجنوں کے حساب سے چینل آئے ہیں آزادی بہت بڑھ گئی ہے مگر ذمہ داری کا فقدان ہے۔ کچھ چینل (میں کسی کا نام نہیں لوں گا، پڑھنے والے خود اندازہ لگالیں) صحافتی بیک گرائونڈ سے آئے اور کچھ دیکھا دیکھی پیسے کے زور پر۔ کچھ کاروباری لوگوں کو محسوس ہوا کہ ان کا کاروبار ترقی کرے گا یا ان کی چوری کو کوئی پکڑنے کی ہمت نہیں کرے گا اگر وہ بھی میڈیا کے مالک بن گئے۔ کچھ پیسے والے لوگ جب میڈیا سے پریشان ہونا شروع ہوئے تو بدلے لینے خود میدان میں کود پڑے۔ یعنی پاکستان میں سوائے دوچار گروپس کے باقی سب لوگ چمک دمک اور بڑھتی ہوئی میڈیا کی طاقت دیکھ کر مالک، اخبار نویس اور میڈیا اینکرز بن بیٹھے۔ کچھ نے خوب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جہاں سے پلاٹ،زمین، نوکری اور کوئی فائدہ مل سکا ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگائی۔ کچھ فوجیوں کی آمریت میں وزیر اور مشیر بنے کوئی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر شامل باجا ہوگیا کوئی سفیر بن گیا اورکوئی امیر، غرض میڈیا کے راستے جس کی جتنی بن پڑی اس کو بے دریغ استعمال کیا۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں کہ کچھ دن کیلئے صحافت کی سیڑھی استعمال کرکے لوگ مزے اڑاتے رہے اور جب وہ دن بیت گئے تو واپس صحافت میں آکر سب کی ماں،بہن شروع کردی یا پھر سیڑھی کے نیچے سےیہ اوپر جانے کی کوشش۔اس بھاگ دوڑ میں جائز اور ناجائز مال کمانا ایک اہم ترین عنصر رہا۔ اخبار اور TV کے مالکان جائز آمدنی کے ساتھ ساتھ خاص مراعات بھی لیتے رہے یہاں تک کہ ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا کہ اگر گاڑی یا موٹر سائیکل پر اگر PRESS لکھا ہوا ہو تو بڑی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں تو اس دور میں چھاپہ خانے والوں نے یعنی پرنٹنگ پریس والے بھی اپنی گاڑیوں پر پریس کی تختی لگاکر گھومنا شروع ہوگئے۔ سب پریس سے ڈرنے لگے پولیس والے دوسروں سے بھتے لیتے تھے مگر پریس والوں کو ماہانہ بھتہ دیتے تھے۔ ہر دروازہ خود بہ خود کھل جاتا اور لوگوں کو ایسے مزے آئے کہ ایک ڈمی اخبار نکالنے والے نے چار ڈمی نکال دیئے ایک وقت میں پشاور جیسے چھوٹے شہر میں 65 روزنامے چھاپے جاتے تھے۔ شاید اب بھی ہوں کیونکہ حکومت سب سے بڑی اشتہاری پارٹی ہوتی تھی تو سارے مالک اور ایڈیٹر اور اکثر جو خود مالک بھی ایڈیٹر بھی ہوتے تھے وہ حکومت کے انفارمیشن کے محکموں اور وزارتوں کے دفاتر میں موجود رہتے تھے۔ ایک بڑی صنعت بن گئی تھی اور حکومتی افسروں کے بھی مزے آگئے تھے کہ اشتہار دیا سو روپے کا اور پچاس یا اس سے بھی زیادہ میز کے نیچے سے واپس کیش لے لیا۔ TV چینل جب آئے تو اکثر وہی لوگ جو اخباروں میں دائو لگانے مارے مارے پھرتے تھے ہر گھر کی TV اسکرین پر نظر آنے لگے اور پھر ایک ایسی ریس شروع ہوئی کہ اللہ کی پناہ۔ اس ساری داستان امیر حمزہ میں جو حصہ صحافت کا شکار ہوگیا وہ پروفیشنل ایڈیٹر اور وہ صحافی تھے جو اپنے کام میں تو ماہر تھے مگر اوپر کی کمائی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر سب سے بڑا نقصان ان مالکوں نے پہنچایا جو خود ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر بن گئے تاکہ جتنی حکومتی مراعات، سرکاری دورے، اعلیٰ حکام اور فوجی اور سول حکمرانوں کی قربت اور سارے مزے وہ خود لوٹ سکیں۔ کچھ سالوں میں اخباروں میں سوائے اکا دکا کو چھوڑ کر سارے مالکان ہی فیصلہ ساز بن بیٹھے۔ TV والوں کا تو اور برا حال ہوا۔ نیا نیا ایک چٹخارے والا میڈیم، فوری شہرت اور اسٹار بن جانے کے مواقع سب ہضم نہیں ہوسکے۔ جو لوگ صحافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی یا دشمنی میں اس میدان میں آگئے وہ تو ظاہر ہے مخصوص ایجنڈے لے کر آئے تھے۔ جب مقابلہ سخت ہونے لگا اور کیک کا حصہ بٹنے لگا تو پرانے کھلاڑی بھی نئے دائو پیچ اپنانے لگے۔ تین گروپ بڑی تیاری سے میدان میں کودے کہ انگریزی کے TV چینل چلائیں گے مگر سب بھاگ لئے۔ جو بکتا تھا وہی پکنے لگا۔ خواتین کی بھرمار اور پھر شادی بیاہ کی رسومات دن رات کا خیال کئے بغیر ایسے نشر ہونے لگیں جیسے یہی ہمارا دینی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ مزید آگے چلے تو جرم کی داستانیں عام ہونا شروع ہوئیں اور کچھ چینل پولیس اور دوسرے اداروں کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ سارے شتر بے مہار ہوتے گئے اور کسی نے نہ روکا روکنے والے یاتو بکے ہوئے تھے یا دبے ہوئے یا ضرورت مند، سیاسی یا مالی طور پر۔ پھر اس لڑائی میں وہ مقام آگیا کہ ہم سب ایک دوسرے پر پل پڑے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ پورا میڈیا اجتماعی خودکشی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک اپنی فکر میں ہے اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اس خودکش جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ آج تک ایک ضابطہ اخلاق یا Working guidelines تک موجود نہیں۔ آج ہم اس طرح ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں جیسے ’’میں نہیں یا تو نہیں‘‘ حکومت عدالتیں اور ادارے تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کو روکیں کس کا ساتھ دیں اور کہاں تک۔ اس دوڑ میں میڈیا کے بڑوں سے بڑی بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوگئیں۔ اخبارات ہمیشہ ہاکروں کے ہاتھ بلیک میل ہوتے تھے مگر جب TV چینل آئے تو وہی غلطی دہرائی گئی اور ہاکروں کی جگہ کیبل آپریٹرز نے لے لی اور آج بڑے سے بڑا چینل بھی ان کے سامنے بے بس ہے۔ مگر یہ سب کہاں جاکر رکے گا۔ فوری طور پر ایک کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ صحافت کے ان لوگوں کو جو پروفیشنل ہیں اختیار دیا جائے اور مالکان ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ صحافتی معاملات کو بزنس سے الگ کرکے چلایا جائے۔ میرے کئی دوست ہیں اور ہم ہمیشہ اخبارات میں صحت مند مقابلہ کرتے رہے ہیںمگر دوستیاں اور ناطے کبھی نہیں ٹوٹے۔ مالکان فیل ہوگئے ہیں اور اس کا نقصان سب کو ہوگا۔ جو گھس بیٹھئےاس پیشے میں آگھسے ہیں ان کی نشاندہی کرنا اور نکالنا ضروری ہے۔ یہ نہ ہوا تو جو چند لوگ اپنی عزت بچاکر چھپے بیٹھے ہیں وہ بھی صحافت چھوڑ دیں گے اور پھر خدا ہی حافظ پھر اجتماعی قبر کا آرڈر دینا پڑ جائیگا۔