• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حرف و معنی کے تعلق کی دل چسپ داستان

مصنّف: عبدالخالق بٹ

صفحات: 444، قیمت: 2600 روپے

ناشر: زیڈ اے بُکس، کراچی۔

فون نمبر: 8224645 - 0300

136 عنوانات

تین سالہ محنتِ شاقّہ کے نتیجے میں منصۂ شہود پر آنی والی اِس کتاب کے مصنّف، عبدالخالق بٹ کا کہنا ہے کہ کتاب ’’لفظ تماشا‘‘ عنوان ہی اِس کے معنی کا ترجمان ہے۔ اِس میں لفظوں کی بازی گری کا احوال آسان تر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔شعوری کوشش کی گئی ہے کہ لفظوں کے تاریخی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی، افسانوی یا سیاسی پس منظر اِس طور اجاگر کیے جائیں کہ قاری کے دل میں لفظ و معنی کی محبّت پیدا ہوجائے۔ اِس بات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے کہ الفاظ کے معنی بیان کیے جائیں، نہ کہ مترادفات کا انبار لگا دیا جائے۔‘‘کتاب میں136 مضامین شامل ہیں، جن میں سے بیش تر ایک اردو ویب سائٹ پر شایع ہوچُکے ہیں۔

متعدّد مضامین کا آغاز کسی شعر سے کیا گیا ہے اور پھر اُس شعر میں وارد لفظ کے منظر اور پس منظر کی بنیاد پر بات آگے بڑھتی چلی گئی ہے، جب کہ اپنی بات شروع کرنے کے لیے مختلف واقعات و حکایات کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ مصنّف نے جس طرح الفاظ کے معنی ومفہوم اور اُن کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے، اُس سے اُن کے وسعتِ مطالعہ کا بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر لفظ بَٹ ہی کو دیکھ لیجیے، جو اُن کے نام کا بھی حصّہ ہے۔ اِس ضمن میں لکھتے ہیں’’بَٹ ہونے کے ناتے اِتنا تو معلوم تھا کہ’’بَٹ‘‘ کشمیری قوم ہے اور یہ کہ اِس گروہ کا تعلق کشمیری برہمنوں سے ہے، تاہم لفظ’’بَٹ‘‘ کی وجۂ تسمیہ سے ناواقف تھے۔

بہرحال، یہ بھید مشہور کتاب’’تاریخ اقوامِ کشمیر‘‘ کے مطالعے سے کُھلا، جس کے مصنّف محمد الدّین فوق کے مطابق’’ بَٹ‘‘ کی اصل سنسکرت کا لفظ’’بھٹارک‘‘ ہے، جس کے معنی چاروں ویدوں کا عالم یا اسکالر ہیں۔یہی’’بھٹارک‘‘ تخفیف کے بعد’’بَھٹ‘‘ اور’’بھوٹ‘‘ ہوا۔اور تخفیفِ مزید پر’’بَٹ‘‘ کہلایا۔ اِس’’بَٹ‘‘ کی ایک صُورت’’وٹ‘‘ بھی ہے۔ 

پاک و ہند میں بٹالہ، بَٹ خیلہ، بَٹ گرام، ڈھیری بَٹاں اور بٹالی ڈھیر وغیرہ مقامات اور آبادیاں’’ بَٹ قوم‘‘ ہی سے موسوم ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ’’بھٹ‘‘ کی نسبت سے جو نام ذہن میں آتے ہیں، اُن میں بھارتی فلم ڈائریکٹر مہیش بھٹ اور اُن کی دُختران سرِفہرست ہیں، مگر مہیش بھٹ کا تعلق کسی کشمیری ذات یا گوت سے نہیں، بلکہ راجپوتوں کے’’بھٹ‘‘ قبیلے سے ہے، جو پنجاب، راجستھان، گجرات اور سندھ میں آباد ہے۔ اِس قبیلے کے لوگ نام کے ساتھ’’بھٹ‘‘ کے علاوہ’’ بھٹّی‘‘،’’بھاٹی اور’’ بھاٹیا‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ بھٹیانہ، بھٹنڈہ، بھٹیورہ، بھٹنیر اور پنڈی بھٹیاں وغیرہ جیسے مقامات اِنہی بھاٹیوں یا بھٹیوں سے منسوب ہیں۔‘‘

اِس کتاب سے متعلق ڈاکٹر معین الدّین عقیل کی رائے ہے کہ’’اِس مجموعے کے منظرِ عام پر آنے کو مَیں ایک فالِ نیک اور خوش آئند اشاعتی اقدام سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوں کہ آج زبان کے بگاڑ کی تو اَن گنت مثالیں ہر روز و ہر لمحہ ہمارے تجربے میں آتی رہتی ہیں، لیکن زبان کے استعمال کا ایک منفرد نمونہ ہمارے سامنے اِس طرح توانا و نمایاں ہے کہ جو آج کی اِس بگڑتی فضا میں بہت اطمینان بخش اور نہایت حوصلہ افزا ہے۔‘‘جب کہ انور مسعود کا کہنا ہے کہ’’عبدالخالق بٹ نے لفظوں کے معانی اور اُن کے رشتوں کی کھوج میں ہر سمت کا سفر کیا ہے۔

کوئی لفظ لسانی اعتبار سے زبانوں کے کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟ ہمریشہ لفظوں کی دُور پار کی رشتے داریوں کا سراغ لگانے میں بے انتہا کاوش کا اہتمام کیا ہے اور اِس تحقیقی خشکی کو دُور کرنے کے لیے موقع بہ موقع جدید و قدیم شعرا کے اشعار کو بھی بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے اور ساتھ ہی اپنی تحریر کو مِزاح کا تڑکا بھی لگایا ہے۔ لفظوں کے مفاہیم اور اُن کے گروہی تشخّص کی نشان دہی کے لیے بَٹ صاحب نے مُلکوں مُلکوں اِتنا سفر کیا ہے کہ لفظوں کو بھی تھکا دیا ہے۔‘‘

ٹوکیو یونی ورسٹی، جاپان سے وابستہ پروفیسر عامر علی خان کا خیال ہے کہ’’ اگر آپ الفاظ کی تشکیل کے پیچھے پوشیدہ کہانیوں کے متلاشی ہیں، زبان کا حُسن، اس کا ارتقا اور اس کی نزاکتیں آپ کو مسحور کرتی ہیں، اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے وقت، تہذیب اور مقام الفاظ کو نیا پیرہن عطا کرتے ہیں، تو یہ کتاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی کماحقہ تسکین کا باعث ہوگی۔‘‘ویسے تو مصنّف نے اپنے مضامین میں ہر لفظ کو پوری طرح کھول ہی دیا ہے، مگر پھر بھی جہاں ضرورت محسوس ہوئی، حواشی میں مزید وضاحت بھی کردی گئی ہے۔

پبلشر نے کتاب دل سے شایع کی ہے کہ معنوی کے ساتھ صُوری حُسن بھی قارئین کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ کتاب اردو ادب کے ہر طالبِ علم کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کہ یہ خزانہ خاص طور پر اُنہی کے لیے ہے۔