• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان کو آج کل جن گھمبیر اقتصادی اور معاشی مسائل کا سامنا ہےان سے عہدہ برا ٓ ہونا اور اقتصادی ترقی و استحکام کی راہ ہموار کرنا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اقتصادی استحکام کی مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ پالیسی نتیجہ خیز نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے صنعت و زراعت اور تجارت کے فروغ پر یکساں توجہ دی جا رہی ہے۔ ملکی برآمدات کا حجم بڑھانے کی کوششیں بروئے کار لانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صنعتوں کا پہیہ چلے گا تو برآمدات کو بھی فروغ حاصل ہو گا اور عوام کیلئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے جس سے انکے اقتصادی مسائل کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ امر واقع ہے کہ صنعتوں کا پہیہ چلانے کیلئے ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے ملک میں امن و امان کا مستقل بنیادوں پر قائم ہونا بھی ضروری ہے اور اسی طرح صنعتوں کیلئے بجلی‘ گیس اور دوسرے لوازمات کی دستیابی بھی ضروری ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت کو اپنے آغاز ہی میں بالخصوص دہشت گردی کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی کمیابی کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے نئے بیل آئوٹ پیکیج کی خاطر بجٹ میں مختلف نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی صورت میں مزید اقتصادی بوجھ عوام کی جانب منتقل کرنا پڑا جس سے عوام میں حکومتی گورننس اور کارکردگی کے حوالے سے اضطراب پیدا ہونا فطری امر تھا چنانچہ ان تمام چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے حکومتی اور عسکری قیادتیں ایک صفحے پر آئیں جسکے خاطرخواہ نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگی کی پالیسی نے قومی صنعت و معیشت کی ترقی کا راستہ نکالا ہے۔

آئی ایم ایف سے مستقل خلاصی حاصل کرناآج یقیناً اچھی حکمرانی کی ضمانت بن چکا ہے جس کیلئے ملک میں موجود وسائل کا کھوج لگا کر انہیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور دوسرے دوست ممالک کی معاونت سے بھی آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چنانچہ ہماری قومی پالیسی کا رخ آج بالخصوص دوست ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کی جانب کیا گیا ہے جس کیلئے ملک کی سول اور عسکری قیادتوں کے مابین مثالی ہم آہنگی کی فضا قائم ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی دوست ممالک کے دورے کرکے انکے پاکستان کے ساتھ مالی اور اقتصادی تعاون کی فضا مستحکم بنانے کی کوششیں بروئےکار لارہے ہیں اور وزیراعظم شہبازشریف کی زیر قیادت حکومت بھی دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے اپنی برآمدات کا حجم بڑھانا اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر چکی ہے۔ اس باب میں حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے مختلف ترغیبات بھی دے رہی ہے اور انکے ساتھ مختلف معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کر رہی ہے۔ اس سے ملک میں لامحالہ پیداواری اور تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئیگی۔ عالمی اور علاقائی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ بڑھے گی اور تجارتی راہداری (سی پیک) کے ذریعے پرامن اور خوشحال مستقبل پاکستان کا مقدر بن جائیگا۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف بھی ملک اور عوام کی ترقی کی خاطر متحرک ہوئے ہیں اور اس کیلئے وہ دنیا کی مختلف قیادتوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو بروئے کار لا کر صنعتی‘ تجارتی سرگرمیوں اور قومی برآمدات کے فروغ کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہبازشریف کے ہمراہ ان کا بیلاروس کا دورہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔دورہ بیلا روس بہت اچھا رہا، بڑی اچھی گفتگو ہوئی، دورے کے دوران بڑے اچھے معاہدے ہوئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات میں تعاون کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاکستان اور بیلا روس کی وزارت دفاع کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا۔ بیلاروس کی فوجی صنعت کی اسٹیٹ اتھارٹی اور وزارت دفاعی پیداوار پاکستان کے درمیان فوجی تکنیکی تعاون سے متعلق 2025 سے 2027کا روڈ میپ طے پاگیا۔ دونوں ممالک کے درمیان ری ایڈمیشن معاہدہ کا معاہدہ بھی طے پایا۔ ڈیڑھ لاکھ ہنرمند نوجوان بیلاروس بھیجے جائیں گے۔

یقیناً اگلے ایک دو ماہ قومی بجٹ کی تیاری کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ بجٹ کی بنیاد پر ہی حکومت خود پر عوام کا اعتماد بڑھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ آئندہ بجٹ جتنا زیادہ عوام دوست ہو گا، عوام بالخصوص تنخواہ دار اور مزدور طبقات کو بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ریلیف ملے گا تو عوام کا اتنا ہی زیادہ حکومتی گورننس پر اعتماد قائم ہوگا۔ سسٹم کے استحکام اور درپیش چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے آج قومی افہام و تفہیم کی زیادہ ضرورت ہے جس کا ملک کی قومی سیاسی، دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو بہرصورت احساس و ادراک ہونا چاہیے۔اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام سیاسی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کو اولین ترجیح دی جائے۔

تازہ ترین