• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سرکس آپ کو بہت سی چیزیں یاد دلاتا ہے : اس میں اداکار ہوتے ہیں، مسخرے ہوتے ہیں، مکالمے اور ڈرامہ، اور پھر مسکراہٹ اور آنسو، خوشی اور غم، ابھی عاشق دل شکستہ اور غم زدہ ہیں، اگلے ہی لمحے وہ مسرت سے نہال ہو جاتے ہیں۔ لیکن حتمی بات یہ ہے کہ آخر میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ کوئی ایسی چیز نہیں رہتی جو یاد دلائے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے۔ ہمہ گیر سکوت آپ کو گھیرے میں لے لیتا ہے۔ اس طرح ایک عام سا ناٹک زندگی کا چھوٹا سا عکاس بن جاتا ہے۔ ایک سرکس ہمارے ارد گرد کے ماحول میں بھی جاری ہے۔ اسکے بہت سے پہلو ہیں جو زندگی اور ہمارے کاموں کی بے ثباتی، مزاجی کا پیغام دیتے ہیں۔ یہاں صرف تغیر کو ہی ثبات حاصل ہے۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم کوئی بھی تعمیری اور سنجیدہ کام نہ کریں، اور اس کی بجائے دکھ درد کے طویل وقفوں کے بعد خوشی کا جو لمحہ آئے، بس اس سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیں؟

سرکس وہ جگہ ہے جہاں حقیقت کا تاثر ارزاں کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ایکٹ دیکھتے ہوئے انسان ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے جس کی حدود حقیقت سے پرے ہوتی ہیں۔ یہاں تخیل کی فسوں کاری حقیقت کی بنت گری کرتے ہوئے آپ کو ایسی حرکیات کا احساس دلاتی ہے جو بیانیے کے تصور کو اداکاری کی حدود میں متاثر کرتی ہے، جیسا کہ ’’تمام دنیا ایک اسٹیج ہے‘‘ میں شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ تمام مرد اور خواتین محض اداکار ہیں۔ وہ اس اسٹیج پر آتے ہیں، اور اپنا کردار ادا کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ ایک انسان اپنے دور میں بہت سے کردارادا کرتا ہے۔

سوچ پر پڑی زنجیریں توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے انسان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا چیلنج ہے، اور یہ بھی کہ ان کی گرہ کشائی کس قدر ضروری بھی ہے۔ یہ کوئی معمولی احساس نہیں، کیوں کہ موجودہ زمانے میں اس سے بہت سے خطرات وابستہ ہیں۔ ان سے نمٹنے کیلئے ایک عمر بھی کم لگتی ہے۔ لیکن پھر ہمارے اندر کچھ ہے جو ہمیں آگے بڑھنے پر اکساتا اور ہمیں باور کراتا ہے کہ کچھ چیلنجز کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ دکھ درد جھیل کر بھی وہ ختم نہیں ہوںگے، اور ہمارے بعد ہماری آنے والی نسلیں بھی انہی کا شکار رہیں گی۔

سادہ الفاظ میں، ایسے حالات میں اپنے حقوق کیلئے پرامن جدوجہد ہماری آئینی اور اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ایسا کرنا معاشرے کے وسیع تر مفاد کیلئے ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسی کوشش کے بغیر جبر اپنے پنجے گہرے گاڑتا جائے گا، اور ان گنت زمانے اذیت کا شکار رہیں گے۔ اس سے روایتی جمود کو توڑنے اور نئے حقائق بے نقاب کرنے کا جواز ملتا ہے۔ کچھ چیزیں جو انسان دیکھتا ہے، کچھ چیزیں جو انسان محسوس کرتا ہے، انھیں اپنے ذہن میں بٹھاتا اور سوچ میں جذب کر لیتا ہے۔ دیکھی ہوئی چیزوں کی اہمیت کم کیے بغیر فہم و تدبر کا تجربہ دیر پا ہوتا ہے، اور اس کا انسانی نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی کے زیر اثر تبدیلی کی سوچ پیدا ہوتی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ تبدیلی کی ابتدائی تحریک وقت گزرنے کے ساتھ زور پکڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ مراحل آتے ہیں جب اسکے بھرپور امکانات بے نقاب ہو جاتے ہیں جو کئی سطحوں پر چیزوں کی سمت تبدیل کر دیتے ہیں۔ آئین کی کتاب میں درج اپنے حقوق سے محروم، ہم بالکل اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔

اس قضیے سے بات شروع کرتے ہیں کہ ہم سب اپنے ملک کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر اس ہدف کے حصول کی اپنی اس کوشش میں اہم مواقع پر کمزوری کیوں دکھا جاتے ہیں؟ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اپنے منصوبوں کی تشکیل میں آگے بڑھنے کی راہ میں ایک اہم فکری رکاوٹ حائل رہتی ہے۔ یہ اجتماعی پیش رفت کی بجائے انفرادی کوشش کو ترجیح دینے کی ہماری رغبت کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ اس اہم منصوبے میں ہر فرد اہمیت رکھتا ہے، لیکن یہ اجتماعی دانش ہے جو ٹھوس نتائج کے حصول کی راہ دکھائے گی۔

ایک اور وجہ ہمیں لاحق مرض کی شدت میں اضافہ کرتی ہے، جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ یہ بیگانگی کثیر جہتی ہے، اور اس کی جڑ آئین کی کتاب میں درج حقوق سے محرومی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عوام کی محرومیاں بڑھ رہی ہیں، اور غلطیوں کی تلافی کرنے اور انھیں قومی زندگی کے مرکزی دھارے میں واپس لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ اس دنیا میں زیادہ تر وقت وہ دھارے سے کٹ کر الگ تھلگ کناروں پر اپنے چند ایک لقموں کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔ روزی کی اس کشمکش نے ان کی عزت نفس اور وقار کو مجروح کر دیا ہے۔

جبکہ سرمایہ کاری کو راغب کرنےکیلئے جو بھی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کے نتائج کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے حالات سازگار ہوں، جو کہ نہیں ہیں۔ سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاستی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کیلئے آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور عنقا ہے۔ ان کے ساتھ ریاستی اداروں کی جانب سےانتہائی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ غیر ملکیوں کی طرح انصاف تک رسائی نہیں رکھتے۔

ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان بڑھتی دوری صاحبان اقتدار کیلئے انتہائی تشویشناک ہونی چاہیے۔ کیا وہ سن رہے ہیں؟ کیا ان میں اتنی حساسیت ہے کہ وہ درد محسوس کر سکیں جو لوگ برداشت کر رہے ہیں؟ ان کے پاس تمام علاج موجود ہیں، لیکن کیا وہ اپنے سیاسی تصورات سے قطع نظر اپنے لوگوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کو تیار ہیں؟ میں ایسا اس لیے کہتا ہوں کہ واضح ناراضی ہے جو ملک کیلئے مزید مسائل پیدا کر رہی ہے۔ سیاسی تفریق کی بجائے ریاستی پالیسیوں کا تعین حکمت اور دانائی سے کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اپنی فطرت کے مطابق وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اب حماقتوں کی مطلق گنجائش نہیں رہی۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی بے بصر پالیسیوں کی اصلاح کریں، وگرنہ وقت کا یہی بگولہ ہمارے درپے رہے گا۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین