یہ بات انتہائی باعث تشویش اور ارباب بست وکشاد کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان،جو روز اول سے کپاس دوسرے ملکوں کو برآمد کرتا آیاہے،آج اپنی ضروریات کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے پوری کرنے پر مجبور ہے۔دوسری طرف سے ٹیکسٹائل کی عالمی مارکیٹ میں سخت مقابلہ ومسابقت کا سامنا ہے۔جس کی رو سے معیاری اور مطلوبہ حجم میں پیداوار حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ملک کی ٹیکسٹائل صنعت اور اس کے ایکسپورٹرز کے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔اب تک متعدد یونٹ بند ہوچکے اوراس سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے9ماہ کے دوران صنعتی ضرورت پوری کرنے کیلئے تین ارب ڈالر سے زائد کی کپاس درآمد کی گئی جبکہ گزشتہ برس اسی مدت میں ایک ارب93کروڑڈالر اس کی درآمد پر خرچ کیے گئےتھے۔اس کے باوجود ٹیکسٹائل صنعت بہترصورتحال ظاہر کررہی ہے۔جس کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات 13ارب60کروڑ ڈالرکی رہیں۔ گزشتہ برس کے اسی عرصے میںاس کا برآمدی حجم 12ارب44کروڑ ڈالر تھا۔زرعی معیشت کا حامل پاکستان 90کی دہائی تک اپنی پیداوار جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ سراہی جاتی تھی ،مقامی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ اسی قدر عالمی مارکیٹ میں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ حاصل کرتا رہا ہے۔کپاس خریف کی فصلوں میں شمار کی جاتی ہے ،کاشتکاروں کے بقول ،وہ مختلف مسائل کی بنا پر کم حجم میں کپاس کاشت کرنے پر مجبور ہیں ۔پاکستان کے پاس وفاقی اور صوبائی سطحوں پر زرعی شعبے سے متعلق مکمل انفرا اسٹرکچر بمع زرعی جامعات اورریسرچ ادارے موجود ہیں،کوئی وجہ نہیں کہ ترقی کے اس دور میں ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی امر مانع ہو۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس طرف بلاتاخیر توجہ دینی چاہئے۔