پنجاب کے وزیرِاعلی، میاں شہباز شریف پرائم منسٹر ہاؤس، اسلام آباد آتے رہتے تھے اور زیادہ تر چوہدری نثارعلی سے علیحدہ میٹنگزکیا کرتے تھے۔اپریل، 1997ء میں ایک بار وہ آئے، تو انہوں نے مجھے اور پرائم منسٹر کے چیف سیکیوریٹی آفیسر، پرویز راٹھور کو بلالیا اور کہا۔ ’’آپ نے سُن لیا ہوگا کہ مَیں نے ایس ایس پی لاہور، ڈوگر کو ہٹا دیا ہے، And now I am looking for a v. good officer who should be posted as SSP LHR، تو مَیں نے سوچا کہ آپ سے بھی مشاورت کرلوں۔‘‘ پھر تھوڑے سے توقّف کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’آپ نے یہیں دل لگالیا ہے، آپ لاہور آجائیں۔
آئی جی نے بھی آپ کا نام تجویزکیا ہے کہ سے ذوالفقار چیمہ بہت effective ہے۔‘‘ پرویز راٹھور صاحب نے بھی زوردار اندازسے تائید کی کہ ’’بلاشبہ effective تو ذوالفقار ہے۔‘‘ مَیں نے فوراً معذرت کی (کہ مَیں کئی وجوہ کی بناء پر اُس وقت لاہور پولیس کا سربراہ نہیں بننا چاہتا تھا) اور کہا۔ ’’سر!اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں کچھ نام تجویز کرسکتا ہوں۔‘‘ انہوں نے اجازت دی تو مَیں نے ایک دو نام تجویز کیے، جن پر تھوڑی سی ڈسکشن بھی ہوئی، جس کے بعد وزیرِاعلیٰ صاحب واپس لاہور چلے گئے۔
اگلے روز جب مَیں دفتر میں مصروف تھا، تو مجھے سیکرٹری ٹو چیف منسٹر جاوید محمود (مرحوم) کی کال آئی کہ’’چیف منسٹر صاحب نے کچھ پولیس افسران کے انٹرویوز کیے ہیں، مگر سی ایم صاحب اور آئی جی صاحب دونوں زور دے رہے ہیں کہ آپ لاہور آجائیں، اس لیے اب آپ اسلام آباد کو چھوڑو اور لاہور آکر پولیس کی کمانڈ سنبھالو، یہاں تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ مَیں نےکہا۔’’ ٹھیک ہے، چیف منسٹر صاحب سے کہیں کہ وہ پرائم منسٹر صاحب سے بات کرلیں، پی ایم جس طرح کہیں گے، اُسی طرح کرلیں گے۔‘‘
دوسرے روز تین بجے کے قریب جب مَیں اپنے دفتر بیٹھا ہوا تھا، تو فون کی گھنٹی بجی۔ آپریٹر نےکہا۔ ’’چیف منسٹر، پنجاب آپ سے بات کریں گے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد شہباز شریف صاحب لائن پر آگئے اور کہنے لگے۔ ’’میری پرائم منسٹر صاحب سے بات ہوگئی ہے، اب وہ آپ سے پوچھیں تو انکار نہیں کرنا۔ بس، فوری طور پرچل پڑیں اور رات تک لاہور پہنچ کر ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر پی ایم نے اجازت دے دی، تو مَیں پہلے اپنے گاؤں جاؤں گا، والدہ صاحبہ سے ملوں گا اور اُن کی دُعائیں لے کر پھر لاہور آؤں گا۔‘‘
انہوں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد مَیں نےکہا۔ ’’لیکن ایک بات ضرورعرض کرناچاہوں گا۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’بتائیں!‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’پولیس افسروں کی ٹیم میں خود بناؤں گا اور ہمارے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’منظور ہے۔‘‘ اُن کا فون بند ہوا تو پی ایم کے ملٹری سیکرٹری کی کال آگئی کہ ’’آپ فوری طور پر آکر پرائم منسٹر صاحب سے ملیں۔‘‘ مَیں پی ایم ہاؤس پہنچا تو ایم ایس نے کہا کہ ’’تھوڑی دیر بعد پرائم منسٹر صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی جا رہے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ آپ ساتھ جائیں گے۔
پی ایم راستے میں آپ سے کوئی ضروری بات کرناچاہتےہیں۔‘‘ وہیں لاؤنج ہی میں میجرجنرل (ر) سکندر (جو سندھ کے ہاریوں میں کچے کی زمینوں کی تقسیم کے انچارج تھے) مل گئے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔’’پولیس کی کوئی بھی اور اسائنمینٹ پرائم منسٹر آف پاکستان کے اسٹاف آفیسر سے زیادہ prestigious نہیں ہوسکتی۔ آپ اتنی اہم پوسٹ چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سی ایم پنجاب کا بہت اصرار ہے، ورنہ مجھے تو لاہور جانےکا شوق نہیں۔‘‘ اتنے میں پرائم منسٹر بھی پہنچ گئے۔
انہوں نے مجھے کار میں ساتھ بیٹھنے کو کہا اور بیٹھتے ہی بولے۔’’آپ نے شہباز صاحب کو ہاں کیوں کی ہے، یہاں ابھی بہت اہم کام تھے۔ آپ سارا کام ادھورا چھوڑ کرجا رہے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! مَیں تو بالکل خواہش مند نہیں تھا، مگر چیف منسٹر صاحب کئی دنوں سے زور دے رہے ہیں، اس لیے انکار نہیں کر سکا۔‘‘پرائم منسٹر خاموش ہوگئے۔ بہرحال، انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور پنجاب حکومت نے مجھے لاہور پولیس کا سربراہ مقرّر کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔
اگلے روزصبح مَیں گاؤں پہنچ کر والدہ صاحبہ سے ملا۔ اُن سے دُعائیں لیں، والد صاحب کی قبر پر جاکردُعا کی اوردوپہر کو لاہور کے لیے چل پڑا۔ لاہورکے قریب پہنچا، تو آئی جی جہانزیب برکی صاحب کا فون آیا کہ’’آپ کہاں ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر!مَیں سیدھا آپ کے دفتر ہی پہنچ رہا ہوں۔‘‘ کہنےلگے۔ ’’مَیں ایک میٹنگ کےسلسلے میں چیف سیکریٹری آفس جارہا ہوں آپ وہیں آجائیں۔‘‘ مَیں جب چیف سیکریٹری کے کانفرنس روم پہنچا، تو یونی فارم کی بجائے سفری لباس یعنی شلوار قمیص میں تھا۔ لاہور کے پولیس چیف کی حیثیت سے مَیں فوری طور پر جس میٹینگ میں شریک ہوا، وہ محرّم میں امن و امان قائم رکھنے کے سلسلے میں تھی، وہیں آئی جی برکی صاحب کے علاوہ چیف سیکریٹری پرویز مسعود صاحب، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ میجر مشتاق، ڈی آئی جی لاہور طارق پرویز اور اپنے کاؤنٹر پارٹ یعنی ڈی سی لاہور ناصر کھوسہ سے بھی ملاقات ہوگئی۔
ڈی آئی جی اسپیشل برانچ نے آنے والے دِنوں کا بڑا خوف ناک نقشہ کھینچا۔ اُنہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ’’اس بار ایک جماعت کے عسکری ونگ کے بڑے خطرناک ارادے ہیں۔ کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ ذوالجناح کے جلوس پر بم، گرنیڈ پھینکے جائیں گے، پانی کی سبیلوں میں زہر ملانے اور اسٹریٹ فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔ سو، عاشورۂ محرّم تک امن وامان کے قیام کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی جائیں۔‘‘ آئی جی صاحب نے بھی اُن کی تائید کی اور کہا کہ ایسے حالات میں پولیس امن و امان قائم نہیں رکھ پائے گی، لہٰذا لاہور کو دس روز کے لیے آرمی کے حوالے کردیا جائے۔
چیف سیکریٹری پرویز مسعود نے سینئر پولیس افسران کی جانب سے فوج بلانےکا مطالبہ سُنا تو کہنے لگےکہ ’’لاہور پولیس کے نئے سربراہ بھی پہنچ گئے ہیں، وہ پہلے یہاں ایس پی سٹی بھی رہ چُکے ہیں، اُن کی رائے بھی معلوم کی جانی چاہیے۔‘‘ اب سب میری طرف دیکھنے لگے۔ مَیں چوں کہ بطور ایس پی سٹی، لاہور تین سال محرّم میں ذمّے داریاں ادا کرچُکا تھا، اس لیے جلوسوں کے روٹس اور سیکیوریٹی کے تقاضوں سے واقف تھا۔ مَیں نے کہا۔ ’’آئی جی صاحب کا جو فیصلہ ہوگا، مَیں اُسی پر عمل درآمد کروں گا۔
لیکن اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھتے ہیں تو َمیں سمجھتا ہوں کہ دہشت گرد ایک invisible (خفیہ) دشمن ہے، وہ سامنے آکر تو حملہ نہیں کرتا اور ایک خفیہ دشمن کو ڈھونڈنے کےضمن میں فوج کی صلاحیت پولیس سے زیادہ نہیں۔ ویسے بھی اندرون لاہور کے گنجان آباد علاقے میں توپیں تو استعمال نہیں ہوں گی، جو پولیس کے پاس نہیں ہیں، اس لیے میرا خیال ہے کہ پولیس یہ ذمّےداری بخوبی نبھالے گی۔‘‘ چیف سیکریٹری کو میری بات پسند آئی۔ وہ کہنے لگے کہ ’’ہم فوج کو بلاتے ہیں تو ان کے بھاری بِلز ادا کرنے پڑتے ہیں، اس لیے ہمیں ایس ایس پی کی بات پراعتماد کرنا چاہیے۔‘‘ تھوڑے توقّف کے بعد مَیں نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہمارے پاس man power کی کمی ہے تو اِس کا حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔‘‘
یہ سُن کر افسر چونک کے میری طرف متوّجہ ہوئے۔ چیف سیکرٹری نے پوچھا۔ ’’وہ حل کیا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! ہم ایک ایسی فورس کو بلاسکتے ہیں، جس کا رعب اور ڈر آرمی سے کسی صُورت کم نہیں، مگراُس کے اخراجات بالکل نہیں ہیں۔‘‘ چیف سیکریٹری نےحیران ہوکر پوچھا۔ ’’وہ کون سی فورس ہے؟‘‘ اس کے بعد کیا ہوا، کیا میری بات مان لی گئی؟ یہ قصّہ پھر کبھی سہی۔
بہرحال، ہم ڈھونڈ ڈھانڈ کر ڈاکٹر نجف مرزا، چوہدری شفیق، امجد خان اور عظیم ارشد جیسے بہترین افسروں کو لاہور لے آئے۔ لاہور میں ایک بھی پولیس افسر میری مرضی کے بغیر تعیّنات نہ ہوسکا۔ ایک دوایس پیز نے وزیروں کی سفارش سے پوسٹنگ تو کروالی، مگر اُنہیں چارج نہیں لینے دیا گیا۔ چیف منسٹر نے بھی اپنا وعدہ نبھایا۔
لاہورمیں کئی ناقابلِ فراموش معرکے ہوئے، کئی چیلنجز پیش آئے۔ مجھ پر توہینِ عدالت کا کیس بھی چلایا گیا، آٹھ مُلکوں کے کرکٹ میچ کی سیکیوریٹی پہلی بار مجسٹریسی کے بغیر صرف پولیس کوتفویض کی گئی، تو ماجد خان نے کہا۔ ’’سیکیوریٹی کا اتنا اعلیٰ معیار مَیں نے پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘ مگر ایک سروس کے افسروں نے دل میں بغض پال لیا۔ اُس کے بعد چیف منسٹر نے پولیس کے لیے پیٹرولنگ کاروں کی منظوری دی، تو اُنہوں نے اس بغض کا کُھل کراظہارکیا۔
پولیس کی تقریبات میں سابق وزیرِاعظم ملک معراج خالد، چیف جسٹس اور چیف منسٹر کے علاوہ فلم اسٹارز محمّدعلی اور ندیم بھی شریک ہوتے رہے۔ مَیں نے پولیس کے معاملات میں ہر قسم کی مداخلت بند کروادی، تو کچھ سیاست دان، بیوروکریٹ اور صحافی میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ اور، بالآخرسازشی عناصر کام یاب ہوگئے۔ میرے ہٹتے ہی ہوم سیکریٹری نے پولیس کی کاروں سے میٹروپولیٹن پولیس کا مونوگرام یہ کہہ کر ہٹوا دیا کہ ’’ذوالفقار چیمہ لاہور میں لندن اور دہلی والا جدید میٹرو پولیٹن پولیس سسٹم نافذ کروانا چاہتا تھا، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
لاہور کے بعد ایک بار پھر پی ایم آفس میں تعیّناتی ہوئی۔ مَیں پی ایم کا اسٹاف افسر تھا، جب پاکستان چھے کام یاب ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی قوّت بن گیا۔ اُس کی تفصیل بھی بڑی دل چسپ ہے۔ پی ایم آفس سے ہی طارق کھوسہ اور کے بی رند کے ہم راہ تین ہفتوں کے لیے جاپان کا معلوماتی دورہ بھی کیا۔ دورے سے واپس پہنچا، توپی ایم آفس کا ماحول بدلا ہوا نظر آیا۔ جو افسر کرپشن میں معطل ہوئے تھے، وہ احتساب سیل کے ڈائریکٹر جنرل بن گئے اور مجھے پی ایم ہاؤس کی فضا بوجھل محسوس ہونے لگی۔
مَیں اب وہاں رہنا نہیں چاہتا تھا، وہیں ایک بار چیئرمین، پی آئی اے شاہد خاقان عباسی صاحب ملے، تو اُنہوں نے دوبارہ پی آئی اے میں آنے کی دعوت دی، تو مَیں نے فوراً ہاں کردی اور پرائم منسٹر نوازشریف نے بھی فوراً ریلیو کردیا۔ نواز شریف صاحب سے آخری ملاقات گویا طرفہ ہی رہی کہ اُس میں مَیں نے اپنے دل کا سارا غبارنکال دیا اور یہ بھی کہا کہ’’احتساب کو کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔
آپ کی حکومت قائدِاعظم کے وژن کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔‘‘ پرائم منسٹر خاموشی سےسُنتے رہے۔ پی آئی اے میں کارپوریٹ کلچر کے مشاہدے کا بڑا مفید تجربہ ہوا۔ مَیں 12 اکتوبر کو کراچی میں ہوتا، تو یقیناً گرفتار ہوجاتا، مگر ایک میٹنگ کے سلسلے میں زیورچ گیا ہوا تھا، اور 12 اکتوبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں تھا۔ واپس آیا، تو مڈوے ہوٹل پر فوج کا قبضہ تھا۔ دو تین روز مَیں بھی وہاں محصور رہا، پھر مجھے واپس اپنے محکمے جانے کی اجازت مل گئی۔
اسٹیبلشمینٹ سیکریٹری طارق سعید ہارون مجھےجانتے تھے، وہ مجھے پنجاب بھیجنے پر اصرار کرتے رہے، مگر مَیں نیشنل پولیس اکیڈمی جانے پر بضد تھا۔ پولیس اکیڈمی میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ اے ایس پیز کی ٹریننگ کروائی اور چارسال تک اُنہیں ایمان داری، غیرجانب داری کاسبق پڑھاتا رہا۔
مَیں نے وہاں تین بیچز کی ٹریننگ کروائی اور ایک ایک لمحے کو مفید اور پُرلطف پایا۔ آئی جی کے پی کے نےاپنے صوبے کے لیے میری خدمات مانگ لیں تو مجھے ڈی آئی جی، ڈیرہ اسمٰعیل خان لگا دیا گیا، جہاں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ خاصا interaction رہا، اُن کے بھائی لُطف الرحمان کا طرزِعمل اُن سے بالکل مختلف تھا۔
ڈیڑھ سال بعد وہاں سے ایبٹ آباد ٹرانسفر ہوگیا۔ وہاں ایک سال بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ ڈی آئی خان میں امن وامان کے حالات خراب ہوگئے، تو وزیرِاعلیٰ نے مجھے بلایا اوریہ کہہ کر دوبارہ ڈی آئی خان تعینات کردیا کہ ’’اب لطف الرحمان آپ کے کسی کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔‘‘ وہیں مولانا فضل الرحمٰن کی کال آگئی کہ ’’ایبٹ آباد سے ڈی آئی خان جانا ایسا ہی ہے، جیسے جنّت سے دوزخ میں جانا۔ مگر اِس وقت وہاں آپ کی ضرورت ہے۔‘‘مَیں نے انکار مناسب نہ سمجھا۔ دہشت گردی کے ضمن میں وہ بدترین دور تھا۔
چار مہینے میں ڈیرہ کے حالات ٹھیک ہوگئے، تو وزیرِاعلیٰ نے وعدے کے مطابق ایبٹ آباد بھیجنے کی بجائے کوہاٹ ٹرانسفر کر دیا۔ جس روزکوہاٹ پہنچا، اُسی شام کینٹ کی مسجد میں خُودکش دھماکا ہوا، مَیں اور اسٹیشن کمانڈر مسجد کے اندر داخل ہوئے تو انسانی لوتھڑوں سے دیواریں بَھری ہوئی تھیں۔ دوسرے روز پولیس ٹریننگ کالج ہنگو کے گیٹ پر دھماکا ہوگیا۔ مَیں کوہاٹ ہی میں تھا، جب جنرل مشرّف نے ایمرجینسی لگا کرججز کو گرفتار کرلیا۔
ہمیں بھی احکامات ملے، مگر ہم نے کسی بےگناہ شخص کو گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں شہباز شریف دوبارہ وزیرِاعلیٰ بن گئے، تو میرا تبادلہ پنجاب کردیا گیا۔ مَیں دس سال کے بعد پنجاب واپس آیا تو چیف منسٹر نے میری خواہش کے برعکس مجھے گوجرانوالہ پولیس کا سربراہ مقرر کردیا۔
وہاں اُس وقت خطرناک ڈاکوؤں اور اغواکاروں کے منظّم گروہوں کا راج تھا۔ پانچ چھے مہینوں میں اُن کا خاتمہ کرکے امن قائم کردیا گیا۔ وہاں مَیں ڈھائی سال رہا اور پولیسنگ میں بہت سی اصلاحات کیں۔ پولیس فورس اور عوام اُس دَور کو، پولیسنگ کی تاریخ کا ’’گولڈن پیریڈ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ 2010ء میں ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدوار کی حمایت کرنے سے انکار کیا اور پولیس کو غیرجانب دار رکھا تو اپوزیشن کا امیدوار جیت گیا، جس پر حکومت ناراض ہوگئی اور مجھے تبدیل کردیا گیا۔
ایک سال بعد شیخوپورہ کے حالات زیادہ خراب ہوئے، تو چیف منسٹر شہباز شریف نے بلا کر وہاں تعیّنات کرنا چاہا، مگر مَیں نے معذرت کی۔ پھر دونوں بھائیوں نے اصرارکیا تو مَیں مان گیا۔ وہاں بھی چند ماہ میں حالات ٹھیک ہوگئے، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے لوگ امن بحال کرنے پر اب بھی فون کرکے دُعائیں دیتے ہیں۔ وہیں سے مَیں آئی جی کے رینک پرپروموٹ ہوگیا۔
اُدھر پاسپورٹ کا محکمہ بدترین بحران کا شکار تھا، تو نگران حکومت نے مجھے بلاکر محکمہ پاسپورٹ کا ڈائریکٹر جنرل مقرّر کردیا۔ اُس بحران پر کیسے قابو پایا، وہ بھی ایک کیس اسٹڈی ہے۔ پنجاب کےعوام اور پولیس فورس دونوں کوتوقّع تھی اورخواہش بھی کہ وزیرِاعظم نواز شریف مجھے آئی جی پنجاب مقرّر کر دیں، مگر پنجاب کی بجائے مجھے موٹر ویز کا آئی جی مقرر کردیا گیا۔
بہت سے سینئر افسران اکثر پوچھتے ہیں کہ’’ نوازشریف کی اسٹاف افسری کی وجہ سےجتنا آپ کو victimise کیا گیا، کسی اورافسر کو نہیں کیا گیا، مگر شریف برادران نے آپ کو، آپ کے stature اور صلاحیتوں کے مطابق کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ نہیں دی، اِس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ممکن ہے، اِس کا جواب مَیں اپنی کتاب میں دوں۔ ریٹائرمنٹ کے کئی ماہ بعد مجھے پرائم منسٹر کے سیکریٹری فواد حسن فواد کا فون آیا کہ پرائم منسٹر چاہتے ہیں کہ آپ نیوٹیک کے سربراہ بنیں۔
لہٰذا تین سال مَیں Skill Development کے قومی ادارے NAVTTC کا سربراہ بھی رہا اور اللہ کے فضل سےاُس کی کارکردگی کو نئی بلندیوں تک پہنچایا، جس کا اعتراف تمامStake holders آج بھی کرتے ہیں۔ اس دوران میری کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ اُن کی لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بڑی یادگار تقریبات منعقد ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ کا بےحد و حساب شُکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے رزقِ حلال پر قناعت بخشی، ہمّت وحوصلہ دیا، گُم راہی سے بچائے رکھا اور میرے دامن پر بےضمیری و بےانصافی کا کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قدر ہمّت واستقامت دی کہ کئی بار اعلیٰ عُہدے قبول کرنے سے انکار کیا اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی قانون کی حُکم رانی کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ چھے مختلف حکومتوں نے بلاکر مشکل ترین ٹاسکس دیئے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سُرخ رُو فرمایا۔
مَیں ادارۂ جنگ کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ جس نے میری ’’خودنوشت‘‘ انتہائی محبّت و خلوص کے ساتھ محض اِس مقصد سے شائع کی کہ نئے سول سرونٹس ان حالات و واقعات سے کچھ سیکھیں، سبق حاصل کریں،motivate ہوں۔
ویسے تو صرف سول سرونٹس ہی کے لیے نہیں، ہرطبقۂ فکر ہی کے لیے اِس مختصر سی سوانح عُمری میں سیکھنے کے کئی اسباق تھے اور ہیں اور مَیں نے حتی الامکان سعی بھی کی کہ جو کچھ مجھ پہ بیتی، گزری، صحیح یا غلط، جو بھی مَیں نے دیکھا، سمجھا اور برتا، پوری ایمان داری و دیانت داری کے ساتھ آپ کے گوش گزار کردوں اور مَیں نے کیا بھی۔اب یہ آپ پر منحصر ہےکہ آپ اِس سے کیا حاصل کرتے ہیں۔ وماعلینا الا البلاغ المبین۔