• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان میں ہونے والے الیکشن کئی پہلوئوں سے تاریخی تھے ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کو اتنی کم سیٹیں ملی ہیں کہ وہ حزب مخالف کی رہنمائی کی بھی حقدار نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے بھی دس فیصد سیٹیں چاہئیں جو کہ اس کے پاس نہیں ہیں۔ دوسری طرف تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جیسی روایت وقوم پرست ہندو پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ بی جے پی کی یہ جیت اس لئے بھی تاریخی ہے کیونکہ پچھلی تین دہائیوں سے کوئی ایک پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی تھی۔ بی جے پی کے نریندر مودی نئے وزیراعظم بڑے کاروباری حلقوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی اس لئے وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ ان کے پاکستان اور خطے میں باقی ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے۔
ہندوستان کی لوک سبھا کی کل 543سیٹیں ہیں اور حکومت بنانے کے لئے 272 سیٹیں درکار ہیں۔ بی جے پی نے خود 283سیٹیں جیتی ہیں اور اس کے اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس نے 337 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری طرف انڈین نیشنل کانگریس نے کل 43 سیٹیں حاصل کی ہیں اور اس کا اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس58سیٹیں جیت سکا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو کوئی سیٹ نہیں ملی جبکہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے نو سیٹیں جیتی ہیں۔ بنگال ، تامل ناڈو اور سکم جیسی ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اتر پردیش (یوپی) میں جتنی سیٹیں ہیں کانگریس کی پورے ملک میں نہیں ہیں۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی کی جیت میں اس کی اپنی خوبیوں سے زیادہ کانگریس مخالف جذبات کا ہاتھ ہے۔ ہندوستان کی معاشی ترقی کی شرح پانچ فیصد سے نیچے آچکی ہے جبکہ یہ 2009ء کے الیکشنوں میں 9.5فیصد تھی اور کانگریس دوسری مرتبہ جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اسی طرح بڑے بڑے بدعنوانیوں کے اسکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔ ان اسکینڈلوں سے پارٹی بہت بدنام ہو چکی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسے دہلی کی سات سیٹوں میں ایک پر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا الیکشن تھا جو کہ صدارتی طرز کا زیادہ اور پارلیمانی کم تھا۔ الیکشن سے پہلے ہی بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا تھا اور میڈیا نے اسے دو شخصیات (مودی اور راہول گاندھی) کے درمیان مقابلہ قرار دیا تھا۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی میڈیا کے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل بڑے سرمایہ دار کاپوریشنوں کی ملکیت ہیں اور یہ سب نریندر مودی کا راگ الاپ رہے تھے۔انہی بڑی کارپوریشنوں کے ایما پر نریندر مودی کی الیکشن مہم کے لئے امریکہ سے اشتہاری کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جنہوں نے نریندر مودی کو ایک چھوٹی ذات کا چائے بیچنے والا مصلح بنا کر پیش کیا۔ انہیں ہر دلعزیز بنانے کے لئے میڈیا کمپنیوں نے یہاں تک مشورہ دیا کہ وہ کس جلسے میں کس رنگ کے کپڑے پہنیں گے۔
اس پہلو سے بھی یہ الیکشن تاریخی ہے انتہاپسند ہندو پارٹی راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پہلی مرتبہ کھل کر سامنے آئی۔ بی جے پی اس تنظیم کا فرنٹ ہے جس کی ماضی میں آر ایس ایس پس پردہ خاموشی سے ڈوریں ہلاتی تھی لیکن اس الیکشن میں اس نے برملا بی جے پی کی پالیسیاں بنائیں اور اسے رہنمائی فراہم کی۔ آر ایس ایس کے ایک سابق ممبر نے ہی مہاتما موہن داس کرم چندگاندھی کا اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اب تو کہا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ باقاعدہ حکومت میں شامل کئے جائیں گے۔
ہندوستان کے اس الیکشن میں بڑے سرمایہ دار اور مذہبی قدامت پرستوں کا پہلی مرتبہ مضبوط اتحاد قائم ہوا ہے۔ امریکہ کی قدامت پرست ری پبلکن پارٹی نے نصف صدی سے یہ اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ امریکہ کی جنوبی ریاستیں مذہبی قدامت پرست ہوتے ہوئے سرمایہ داروں کی حامی ری پبلکن پارٹی کا گڑھ ہیں۔ امریکہ کی جنوبی مذہب پرست ریاستیں نسل پرست بھی ہیں یعنی وہ کالے امریکیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے سفید فام سرمایہ داروں کی نمائندہ ری پبلکن پارٹی کو حکومت میں لاتی ہیں۔ آر ایس ایس نے بھی یہی ماڈل اپنایا ہے اور بڑے سرمایہ داروں کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ مسلم مخالف ہندو جذبات کو ابھارا ہے۔ خود نریندر مودی پر الزام ہے کہ 2002ء کے مذہبی فسادات میں ان کی حکومت نے مسلمانوں کی حفاظت کرنے کے بجائے درپردہ ہندو انتہا پسندوں کا ساتھ دیا تھا۔
نریندر مودی نے اس الیکشن میں خود مذہبی اور نسلی تفرقات کے بارے میں بات نہیں کی یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی پارٹی کے اور دوسرے بہت سے لوگ مسلم مخالف تقریریں کرتے رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے آپ کو ایک معاشی مسیحا کے طور پیش کیا ہے، ایسا مسیحا جو گجرات میں معاشی معجزے دکھا چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات نے معاشی طور پر بہت ترقی کی ہے لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ گجرات کبھی بھی پسماندہ ریاست نہیں تھا اور گجرات کے سرمایہ کارامریکہ کی موٹل انڈسٹری سے لے کر افریقہ کی معاشی منڈیوں پر چھائے ہوئے ہیں لہٰذا گجرات کی ترقی میں نریندر مودی کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ گلوبلائزیشن اور گجراتی سرمایہ کاروں کی تاریخی ہنر مندی کی وجہ سے ہوا ہے۔ بہرحال میڈیا نے ان کو ہندوستان کا رونالڈ ریگن بنا کر پیش کیا ہے جو ملک کی معیشت کو بحال کرے گا۔ اگرچہ بی جے پی کو حکومت بنانے کے لئے کسی پارٹی کی مدد نہیں چاہئے لیکن اسے اپنے اتحاد کو وسیع تر کرنا پڑے گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بہت سے صوبوں میں دوسری پارٹیوں کی حکومت قائم ہے اور دوسرے راجیہ سبھا (سینیٹ) میں اس کی اکثریت نہیں ہے اور اسے کسی بھی اہم قانون کو منظور کرانے کے لئے دوسری پارٹیوں کی مدد درکار ہو گی۔ اسی طرح معاشی ترقی کے لئے اسے امن و امان قائم رکھنے کی ضرورت ہے جو کہ مذہبی نفرت کی فضا میں قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر نریندر مودی بڑے سرمایہ داروں کے نمائندے ہیں تو ووٹ کی حد تک تو مذہبی تفرقات کو استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ مذہبی فسادات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے بی جے پی کے پچھلے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی والی حکومت نے نہ تو رام مندر کے بارے میں کوئی قدم اٹھایا تھا اور نہ ہی کشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت تبدیل کی تھی۔
نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ وہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ہندوستان کا رول بڑھانے پر زور دیں گے۔ بظاہر اس سے پاکستان میں تشویش بڑھنے کے امکانات ہیں لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ ان کی پاکستان پالیسی کیا ہوگی۔ بظاہر وہ پاکستان دشمنی کے نعرے پر جیت کر نہیں آئے اور وہ اس بارے میں نئی شروعات کر سکتے ہیں ۔پارٹی کی بڑی لیڈر سشما سوارج (ممکنہ وزیر خارجہ) نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وہیں سے شروع کریں گی جہاں واجپائی حکومت نے 1999ء میں چھوڑا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کے دور میں پاک ہند تعلقات خراب ہونے کے بجائے بہتر ہوسکتے ہیں۔
تازہ ترین