انطالیہ آج جدید ترکی کی سفارت کاری میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بحیرہ روم کے کنارے آباد اس تاریخی شہر میں ایک سو پچاس ممالک کے کوئی 6000 ہزار مندوبین انطالیہ ڈپلومیسی فورم میں شرکت کر رہے تھے اور دنیا بھر کے وفود سے تبادلہ خیال کرنے کا بھی موقع ميسر آ رہا تھا ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ترک عوام پاکستان سے بہت محبت رکھتے ہیں مگر اس میں قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ اتنی قربت ، محبت کےباوجود دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات ، تجارتی حجم بہت محدود ہے اور جب تک معاشی مفادات ایک دوسرے میں باہم پیوست نہ ہوںاس وقت تک مشترکہ ترقی ، مشترکہ مفادات قائم نہیں ہوتے ۔ انطالیہ ڈپلومیسی فورم میں مختلف ترک سرکاری اور کاروباری افراد سے گفتگو ہوئی ۔ میرا تجسس یہ تھاکہ معاشی تعلقات جیسے اہم ترین عامل پر اتنی عدم توجہی کیوں ہے ؟ ترکوں کا جواب چونکا دینے والا تھا اور پاکستانی ارباب اختیار کو اس پر فی الفور توجہ دینی چاہئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم جب بھی جاتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ پاکستان کوئی دوسرا ملک ہے ۔ بے انتہا ، محبت ہماری منتظر ہوتی ہے ۔ ہمارے وفود کی اعلیٰ ترین سطح پر ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک ہمارے لئے خصوصی طور پر وقت نکالتے ہیں مگر حیرت ناک امر یہ ہے کہ جب ہم اپنے معاشی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں تو بس ہاتھ پاؤںہی مارتے رہ جاتے ہیں اور ہماری تجاویز ، منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ۔ اب یہ افسر شاہی کا مسئلہ ہے یا کہیں اور کوئی معاملہ دیوار بن جاتا ہے ، یہ ہم نہیں جانتے ہیں ۔ میرے اس سوال پر کہ دونوں برادر ممالک کے مابین تجارتی حجم کم از کم کتنا ہونا چاہئے تو جو بھی ترک ملا اس کا کہنا تھا کہ پانچ ارب ڈالر کا ہدف تو با آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر محنت کی جائے تو تجارت اس سے کئی گنا زیادہ بڑھائی جا سکتی ہے ۔ ترکی مڈل کوریڈور جو بیجنگ سے لندن تک بن رہا ہے ،میں بھی بہت دلچسپی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں بھی اس کو پاکستان کی مدد درکار ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ہے کہ ہم ایسے ملک سے تو تجارت بڑھانے کیلئے ہزار دلائل دیتے ہیں کہ جس سے بار بار تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور سب کچھ رک جاتا ہے مگر ہم ان ممالک سے تجارت بڑھانے کی کوشش نہیں کرتے جو اپنےدونوں بازو پھیلائے کھڑے ہیں ۔ اسی طرح سعودی عرب سے آئے ہوئے وفد کے افراد سے گفتگو ہوئی۔ میں حیران رہ گیا جب انہوں نے بھی اسی نوعیت کے خیالات کااظہار کیا ۔ ایک سعودی نے تو مجھے کہا کہ ہم پاکستان کاروباری امور پر معاملات آگے بڑھانے کیلئے گئے تو ہماری وزرا سے ملاقاتیں طے ہوئیں مگر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی اپنے محکموں کے حوالے سے تیاری ہی نہیں تھی ۔ ایک صاحب کی تو اب آپ کے ملک میں وزارت بھی تبدیل کر دی گئی ہے جبکہ دوسرے صاحب ہمیں اپنی ہاؤسنگ اسکیم دکھانے لے گئے جو ہمارے دورے میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی ہمارا اس سے کوئی تعلق تھا ۔بہر حال وزیر اعظم کو فوری طور پر ایسی حکمت عملی مرتب کرانی چاہئے جو کہ اس کا تعين کرے کہ دنیا کہ کن ممالک سے ہمارا تجارتی حجم بڑھ سکتا ہے ، اس وقت کتنا تجارتی حجم ہے اور بڑھنے کے امکانات کیا ہیں ۔ روس پاکستان کو تجارت کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک حوالے سے بھی دیکھتا ہے اور میری انطالیہ میں جن روسیوں سے گفتگو ہوئی سب کی ایک ہی رائے دیکھی کہ پاکستان اپنی پوزیشن ، مرتبہ کے مطابق اپنے آپ کو استعمال نہیں کر پاتا ہےجس کی وجہ سے مسائل کا شکار ہوتا ہے۔اور میں روسیوں کے اس تجزیہ سے سو فیصد متفق ہوں ۔ انطالیہ کے سب سے بڑے سیاحتی مقام ہیڈرین گیٹ جو دوسری صدی عيسوی میں رومی شہنشاہ ہیڈرین کے دورے کی یادگار کے طور پر آج تک قائم ہےاور تاریخی عجائب گھر دیکھنے کے بعد انطالیہ کو خدا حافظ کہا نہایت خوش گوار یادوں اور دنیا بھر سے نت نئے دوستوں کے بننے کے باعث استنبول کی جانب محو سفر ہو گیا ۔ استنبول میں پہلی مصروفيت استنبول یونیورسٹی میں جانا تھا ۔ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر عثمان بلنت سے ملاقات رہی ، پاکستان پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ پروفیسر وقار بادشاہ پاکستانی ہیں اور ان کو ترک پروفیسر عبد الحمید برشک کے جن کا تعلق مرمرہ یونیورسٹی سے ہے کے ذریعے میری آمد کی اطلاع ہوئی ، پاکستانی کمیونٹی میں بہت متحرک ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی طلبا بھی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلارہے ہیں ۔ پاکستانی طلبا کے صدر عبد الرحمان رزاق ، جمال مٹھہ ٹوانا سے ، سید مسلم پاک پتن جبکہ عبد الرحمان لاہور سے تعلق رکھنے والے استنبول میں بہت متحرک کردار ادا کر رہے ہیں ۔