وزیراعظم شہباز شریف کا نئی نہروں کی تعمیر کا کام رکوانے اور منصوبے کو باہمی اتفاق رائے سے مشروط کرنے کا فیصلہ جہاں اس ایشو پر اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پیدا ڈیڈ لاک ختم کرنے کا ذریعہ بنا، وہاں وفاقی نظام کے طریق کار کی ایک ضرورت اور ملک کو درپیش بڑے چیلنج کا تقاضا بھی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اورچیئرمین پی پی کی بلاول بھٹوکی قیادت میں وفود کی سطح پر بات چیت کے بعد سامنے آنے والا یہ اعلان ان سب حلقوں کے لئے طمانیت بخش ہونا چاہئے جو تاحال مظاہروں، دھرنوں کا حصہ رہے۔ پیپلز پارٹی مذکورہ اعلان پر تین روزہ اظہار تشکر اور جشن مسرت منانے میں حق بجانب ہے مگر حکومتی جماعت اور اسکی بڑی اتحادی جماعت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ دھرنا جاری رکھنے والی جماعتوںاور گروپوں، بالخصوص پنجاب مرکزی شاہراہ ببرلو بائی پاس پر دھرنا دینے والے وکلا کو مطمئن وقائل کرے۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جبکہ مشترکہ مفادات کونسل، قومی مالیاتی کمیشن اور ارسا جیسے ادارے وفاقیت کے تحفظ کے ایسے ذرائع ہیں جہاں فیصلوں میں اتفاق رائے کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ2مئی کے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاق کی وحدت پر کسی اور چیز کو ترجیح دی جائے۔ ایسے مرحلے پر کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے تعطل کے اقدام سمیت پاکستان کو پیاسا مارنے کا منصوبہ سامنے آچکا ہے۔ صوبوں کے درمیان ہی نہیں ، عوامی زندگی کے ہر حلقے اور شعبے کی طرف سے باہمی اتحاد و یگانگت کے اظہار کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمیں ہر فورم پر اور ہرمیدان میں پانی کے حصول کی وہ بڑی جنگ لڑنی ہے جو زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے اور وہ جنگ بھی لازماً جیتنی ہے جو ہماری آزادی خودمختاری اور ملکی بقا میں ضرورت بن کر سامنے آسکتی ہے۔ ہمیں ہر میدان میں سرخرو ہونا اور ثابت کرنا ہے کہ پاکستانی قوم ناقابل تسخیر ہے۔