تادم تحریرنئی نہروں کے متنازع منصوبوں کیخلاف سندھ اور ملک بھر میں لوگوں نے نہ فقط لانگ مارچ شروع کردیئے ہیں بلکہ جگہ جگہ ریلیاں بھی نکالی جارہی ہیں‘ مظاہرے بھی ہورہے ہیں تو دھرنے بھی دیئے جارہے ہیں۔ ان مظاہروںاور دھرنوں میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ اب مذہبی جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں،ان میں نہ صرف سیاسی کارکن بلکہ مزدور،ہاری، طلباء ، عورتیں اور بچے بھی بڑے پیمانے پر شرکت کررہے ہیں۔یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ پنجاب کی طرف سے کینال بنانے سے سارے سندھ میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ضلع ٹھٹھہ میں پانی کا اتنا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے کہ وہاں پانی کی 70 فیصد کمی ہوگئی ہے یہاں تک کہ ضلع ٹھٹھہ کی سوا دو لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہوچکی ہے‘ کوٹری بیراج میں مسلسل پانی کی کم فراہمی کی وجہ سے ’’لاڑ علاقے‘‘ میں پانی کی کمی انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرگئی ہے۔ علاوہ ازیں اس ضلع کے دیگر علاقوں ناری چج‘ ساکرو‘ کھانٹی‘ نصیر بگھاڑ‘ جام‘ 103 مور ی اور بشمول گھار مسان اور کئی علاقوں میں مٹی اڑ رہی ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انڈس ڈیلٹا 92فیصد تباہ ہوچکا ہے‘ وہاں 17میں 15کریکس مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں‘ ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ آنیکی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار مچھیرے دیگر علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں،علاقے کا پانی بھی نمکین ہوگیا ہے جسکے نتیجے میں تیمر کے جنگلات اور آبی حیات سخت متاثر ہوئے ہیں۔
اس صورتحال پر سارے سندھ کے وکلا اور بار ایسوسی ایشنوں بشمول کچھ اور علاقوں کے وکلا نے مل کر جو احتجاج کیا ہے اس نے ایک نئی تاریخ کو جنم دیا ہے، اس احتجاج کے ذریعے وکلا نے تین صوبوں کے راستے بند کرنے کے علاوہ اب ریلوے ٹریک اور ایئر پورٹ بند کرنے کا اعلان کیا ‘ وکلا نے ببرلو بائی پاس پر بڑا احتجاجی دھرنا دیا‘ کراچی سے نکلا یہ عوامی مارچ جب ببرلو پہنچا تو وکلا‘ سیاسی کارکنوں‘ مزدوروں اور ہاریوں کی ایک بڑی تعداد نے انکا بھرپور استقبال کیا‘ قومی شاہراہ پر ایک تاریخی دھرنا دیا گیا۔
اسی دوران پنجاب کی طرف سے دریا پر کینال بنانے کیخلاف پیپلز پارٹی کی طرف سے منعقد کئے گئے ایک بڑے احتجاجی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خبردار کیا کہ وہ کسی بھی حالت میں دریائے سندھ کا تحفظ کرینگے اور خبردار کیا کہ اگر کینال بنانے کا منصوبہ ختم نہ ہوا تو وہ وفاقی حکومت کیساتھ نہیں چل سکتے ۔ مزید کہا کہ انہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا اور انکی وجہ سے آج انکے پاس طاقت ہے۔ انہوں نےمطالبہ کیا کہ کینال بنانے کا منصوبہ واپس لیں،پانی کا ایشو پاکستان کو عالمی سطح پر بڑی مشکلات سے دوچار کردیگا۔ یہاں میں ایک بار پھرسے پنجاب کی گریٹر تھل کینال کی بابت چند حقائق کاذکر کرنا چاہونگا۔
ہوا یہ کہ اس وقت پنجاب کے چیئرمین واپڈا لاہور میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کررہے تھے‘ جس میں سندھ کراچی کے بھی کچھ صحافیوں کو مدعو کیا گیا‘ ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔ اس پریس کانفرنس میں سب سے زیادہ سوال میں نے کئے۔واضح رہے کہ پریس کانفرنس سے چند دن پہلے اس وقت کےپاکستان کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں واپڈا والوں کی طرف سے ایک اجلاس ہواتھا جس میں کئی متنازع منصوبوں کی منظوری دی گئی‘ ان منصوبوں میں ’’گریٹر تھل کینال‘‘ کے علاوہ چند دوسرے متنازع منصوبے بھی شامل تھے۔
پریس کانفرنس میں میرے زیادہ سوالات مذکورہ اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین واپڈا نے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی کہ یہ صحیح ہے کہ اس اجلاس میں ان منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے مگر ان میں سے کسی پر بھی تب تک عمل نہیں ہوگا جب تک کہ سی سی آئی ‘ ارسا وغیرہ سے یہ منصوبے منظور نہیں ہوتے۔بعد میں چائے کے دوران میں نے واپڈاکے ایک بڑے افسر سے کہا کہ اس اجلاس میں گریٹر تھل کینال کی بھی منظوری دی گئی ہے میں کیونکہ آپ کا مہمان ہوں لہٰذا میں چاہوں گا کہ اس پروجیکٹ کی ایک کاپی فراہم کی جائے تاکہ میں اسکا جائزہ لے سکوں۔ اس آفیسر نے میرے اس سوال کا بہت دلچسپ جوا ب دیا جو انتہائی اہمیت کا حامل بھی تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ وفاقی حکومت یا اس کے کسی ادارے نے نہیں بنایا یہ پروجیکٹ پنجاب حکومت نے بنایا ہے اور اس کی کاپی بھی ہمارے پاس نہیں‘ پنجاب حکومت کے پاس ہے۔
اسی رات واپڈا کی گاڑیاں ہم صحافیوں کو تھر کی طرف لے گئیںاور جب تھر میں ہماری گاڑیاں ایک جگہ پہنچیں تو کئی بڑی گاڑیوں کی آوازیں سننے میں آئیں، ہم صحافیوں کو گاڑیوں سے اتار کر تھوڑا ہی آگے لے گئے تو ہم نے دیکھا کہ کسی نہر کی کھدائی پر کام ہورہا تھا‘ اس مرحلے پر پنجاب کے محکمہ آبپاشی کا ایک سرائیکی افسر میرے نزدیک آیا،یہ افسر اس وقت وہاں موجود تھا جب میں نے واپڈا کے بڑے افسر سے گریٹر تھل کینال پروجیکٹ کی کاپی مانگی تھی‘ اس نے مجھے کان میں بتایا کہ مغل صاحب یہ وہی گریٹر تھل کینال ہے جس کے بارے میں آپ اس افسر سے بات کررہے تھے بعدازاں کراچی واپس آنے کے بعد میں نے اس سلسلے میں خبر اپنے انگریزی اخبار کو بھیجی تو اخبار نے خبر دوسرے دن فرسٹ لیڈ کرکے شائع کی۔
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے سیکرٹری کے علم میں جب یہ بات لائی گئی تو اس نے ان تفصیلات پر مشتمل ایک تفصیلی لیٹر وفاقی وزارت قانون کو ارسال کیا۔ بعد میں اس وزارت کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن کے تحت گریٹر تھل کینال پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔