• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبریں تو بہت ہیں۔ پہلگام کا غبار ابھی بیٹھا نہیں۔ مشرقی سرحد پر تنائو موجود ہے۔ دونوں ممالک کی خبر منڈیوں میں سنسنی فروش صحافیوں کی چاندی ہے۔ فرق شاید یہ ہے کہ بھارت میں صحافتی شور کے شانہ بشانہ سفارتی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ نریندر مودی نے درجن بھر عالمی رہنمائوں سے فون پر بات کی ہے۔ دہلی میں سو سے زائد سفارت خانوں کے وفود کو بھارتی دفتر خارجہ میں بریفنگ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں یہ اطلاع اہم ہے کہ بھارتی سفارت کاری دو نوں ممالک میں صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے نہیں بلکہ بھارت چاہتا ہے کہ عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کسی بڑے اقدام پر قائل کیا جا سکے۔ اس میں یہ مشکل درپیش کہ پہلگام واقعے میں بھارت اب تک نہ تو حملہ آوروں کی ٹھیک تعداد کا تعین کر سکا ہے اور نہ ان کی شناخت کی جا سکی ہے۔ لائن آف کنٹرول سے 175کلومیٹر پرے اس حملے کا پاکستان سے کوئی تعلق قائم نہیں کیا جا سکا۔ بھارتی وزیر اعظم بھی اپنی شعلہ بیانی میں براہ راست پاکستان کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ لے دے کے بھارتی حکام کے پاس ماضی کے کچھ واقعات کا حوالہ رکھا ہے۔ مغربی سفارت کار سوال اٹھا رہے ہیں کہ ماضی کی بنیاد پر دو ہمسایہ ممالک میں کسی فوجی تصادم کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ نچلی سطح کی قیادت کے کچھ نمائشی بیانات ہیں۔ ایک دو دوست ممالک کی طرف سے ثالثی کی پیشکش ہے۔ دنیا اس وقت غزہ، یوکرین اور تجارتی جنگ جیسے معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ دہلی کے سائوتھ بلاک میں یہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ ’موجودہ عالمی صورتحال میں دنیا کو جنوبی ایشیا میں دلچسپی نہیں ہو گی‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بے نیاز رائے زنی سے قطع نظر دنیا ایٹمی صلاحیت رکھنے والی پونے دو ارب آبادی کے تصادم سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ تاہم پاکستان اور بھارت میں کسی عسکری تصادم کے بے قابو ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

دوسری طرف تین روز میں مغربی سرحد پر دراندازی کرنے والے 75طالبان مارے گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں حسن خیل کے مقام پر 54طالبان پاکستان میں گھسنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے ملک دشمن عناصرکی دیدہ دلیری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال پوچھنا تو خیر قومی مفاد کے منافی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی لگائی باڑ مؤثر کیوں ہے؟ 2017ء سے افغان سرحد پر 2400کلو میٹر طویل آہنی باڑ لگانے کی ہماری خبروں کی حقیقت کیا یہی ہے کہ چمن سے طورخم تک نقاب پوش جگہ جگہ نقب لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے حملوں کی پیش بندی میں قابل ذکر کامیابی ہوئی ہے تاہم غیر متناسب لڑائی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر منظم فوج چھاپہ مار گروہوں کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرتی تو اسے چھاپہ مار عناصر کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ بھارت براہ راست کسی قابل ذکر اقدام کی بجائے افغانستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے پاکستان کو ایک سے زیادہ محاذوں پر الجھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

اسی سے منسلک خبر ہے کہ کوئٹہ کے شمال میں صنوبر کے گھنے جنگلات سے ڈھکے ضلع زیارت سے سات افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کچھ خبر نہیں کہ یہ کن خاک نشینوں کے لاشے ہیں۔ مقامی افراد ہیں یا دہشت گرد۔ سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا ہتھیار بند باغی گروہوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بار بار عرض کی گئی ہے کہ بلوچستان میں بدامنی اور بے چینی پر قابو پانے کیلئےسیاسی عناصر کے ساتھ گفت و شنید ہونی چاہیے اور ہتھیار بند گروہوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز سیاسی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے طاقت پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ اس یک رخی پالیسی کی مخالفت کرنے والوں کا نقطہ نظر ایک نہایت حساس معاملے پر درست ثابت ہوا ہے۔ نئی نہروںکی تعمیر کے خلاف سندھ میں ردعمل کے پیش نظر عرض و معروض تھی کہ پانی پر سندھی ہم وطنوں کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے سیاسی سطح پر معاملات سلجھانے کیلئےقومی مفادات کی کونسل کا اجلاس بلانا چاہیے۔ یہ اجلاس 2مئی کو طلب کیا گیا تھا تاہم معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 28اپریل ہی کو طلب کر لیا گیا اور وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاق کے اس اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے نے سندھ حکومت کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے چھ نئی نہروں کی تعمیر روک دی ہے۔ اس ضمن میں اب تک ہونے والی دستاویزی کارروائی منسوخ کرتے ہوئے صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ سیاسی قیادت کا مدبرانہ اقدام ہے۔ پاکستان معاشی، سیاسی اور قومی سلامتی کے موجودہ مسائل میں ایک نیا تنازع کھڑا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک پاک بھارت کشیدگی کا تعلق ہے، درویش کی عمر کو پہنچنے والوں کوہمارے گلی کوچوں میں گھومنے والا ایک کردار یاد ہو گا جو چند پیسوں کے عوض بچوں کو سیربین کہلانے والے ایک ڈبے میں جھانکنے کی اجازت دیتا تھا اور اپنی دھیمی آواز میں بے ربط مناظر دہراتا تھا۔ کہیں بادشاہ کا دربار دکھاتا تھا تو کہیں بارہ من کی دھوبن۔ ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوا کہ لوہے کے اس گول ڈبے میں ٹوٹی ہوئی رنگین چوڑیاں رکھی تھیں اور بارہ من کی دھوبن ہمارے اپنے تخیل کا کرشمہ تھی۔ 2004ء کے بعد سے بھارتی کشمیر میں دراندازی کی شدت ختم ہو چکی۔ البتہ بھارت کی داخلی سیاست اسے اپنے عوام کیلئے اسی طرح زندہ رکھے ہوئے ہے جیسے سیربین والا بوڑھا ہمیں بارہ من کی دھوبن دکھاتا تھا۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں سندھ طاس کے نازک زاویوں پر سیاسی حکمت عملی کی کامیاب پیش رفت سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسئلے پر کمان میں بان جوڑنا مناسب طریقہ نہیں۔ سیاسی عمل وہ محاوراتی ’نو من تیل‘ ہے جس کے بغیر امن اور خوشحالی کی رادھیکا رقص نہیں کر سکتی۔ ظفر اقبال کا ایک خوبصورت شعر دیکھئے۔

سب مورچے باندھے ہوئے بیٹھے ہیں چھتوں پر

دروازہ ہے ٹوٹا ہوا، دالان ہی نشتے

تازہ ترین